خالد رضی اللہ عنہ اللہ کی تلواروں کے ساتھ
📎 حصہ دوم
🕹ایک یوسف نامی نومسلم رومی سپاہی خاموشی کے ساتھ اسلامی لشکر کی جانب بڑھا اور سیدھا امیر لشکر امین الامت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے خیمے میں جا پہنچا،
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جب رومیوں کی نئی حکمت عملی کے بارے میں سنا تو جلدی سے قریش کے ایک ذہین دماغ رکھنے والے تجربہ کار شخص حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، یہ وہی ابوسفیان ہیں جنہوں نے احد کے میدان اور احزاب کی جنگ میں کفار مکہ کی کمان کی تھی، لیکن پھر فتح مکہ کے موقع پر ان کی کایا پلٹ گئی،
قدرت رکھنے کے باوجود بھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابوسفیان کو نہ صرف معاف کیا تھا بلکہ ان کے گھر کی حد میں آنے والے کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کیا اس بات نے ایسی چوٹ لگائی کہ دل ایمان کی روشنی سے منور ہوگیا۔
اس کے بعد بڑے بڑے مشکل حالات آئے لیکن ابوسفیان دین حق پر ڈٹے رہے، غزوہ حنین میں کفار کی طرف سے ہونے والی تیر اندازی میں ان کی ایک آنکھ شہید ہوگئی لیکن جذبہ جہاد کم نہ ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحلت کے بعد جب سارا عرب مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہوگیا تھا تب بھی ابوسفیان اور ان کے ساتھی اسلام پر نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ آگے بڑھ کر مرتدین، منکرین زکوۃ اور مسیلمہ جیسے ملعونوں کا قلع قمع کردیا۔
زہے نصیب کہ یرموک میں رومیوں کی طوفانی تیر اندازی میں دوسری آنکھ بھی شہید ہوگئی لیکن ان کے پایا استقلال میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
اسلامی لشکر کے امیر آج بھی ابوسفیان کی ذہانت کے معترف تھے اسی لیے اس نئی صورت حال میں انہیں بھی بلا لیا گیا، ابوسفیان کے آتے ہی یوسف نے رومیوں کی تمام حکمت عملی کے بارے میں تفصیل سے بتا دیا۔
یوسف کی بات سننے کے بعد ابوسفیان نے کہا، "ہمارا لشکر غسانی عربوں کو آسانی سے مات دے سکتا ہے، لیکن یہاں کی صورت حال کافی تشویش ناک ہے، اگر ہم ساری کی ساری طاقت میدان جنگ میں جھونک دیں گے تو دن ڈھلنے کے بعد رومیوں کا ساڑھے تین لاکھ کا لشکر کسی وقت بھی آگے بڑھ کر اسلامی لشکر کو گھیر سکتا ہے اور اس وقت اسلامی لشکر ان کی طرح چاق و چوبند نہیں ہوگا لہذا زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے، لیکن غسانیوں کے مقابلے میں نہ نکلنا بھی بزدلی ہوگی، ایسے وقت میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟" یہاں تک کہہ کر ابوسفیان خاموش ہوگئے، دونوں کافی دیر بحث کرتے رہے کہ آدھا یا کم از کم چوتھائی لشکر کمین گاہ میں رکھیں لیکن کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔
دوسری جانب رومی سپہ سالار باہان کے خیمے میں شراب کے جام چل رہے تھے، طوما نے اکیلے میں باہان کو اپنی پوری حکمت عملی کے بارے میں بتا دیا تھا کہ کیسے کل غسانی عربوں کے ذریعے اسلامی لشکر کو تھکانے کے بعد انہیں گھیر کر گاجر مولی کی طرح کاٹا جائے گا، شراب کے جام ٹکرا رہے تھے اور رومی سپہ سالار اپنی کل ہونے والی یقینی فتح کے بارے میں سوچ رہا تھا، کیونکہ اس حکمت عملی میں رومیوں کی ناکامی کو قطعی امکان نہیں تھا۔
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ خیمے میں بے چینی سے ٹہل رہے تھے کہ اچانک انہی کسی کا خیال آیا، اور ان کے چہرے کی شادابی لوٹ آئی، ہاں واللہ مجھے پہلے کیوں یہ خیال نہ آیا، یہ سوچتے ہوئے وہ باہر نکلے اور ایک مجاہد سے کہا، "جاؤ جاکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔"
🔄جاری ہے 📮بشکریہ: دستک
Bookmarks