(1)

رات

کيوں ميری چاندنی ميں پھرتا ہے تو پريشاں
خاموش صورتِ گل ، مانند بو پريشاں
تاروں کے موتيوں کا شايد ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی ميرے دريائے نور کی تو
يا تو مری جبيں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی ميں جا بسا ہے
خاموش ہو گيا ہے تار رباب ہستی
ہے ميرے آئنے ميں تصوير خواب ہستی
دريا کی تہ ميں چشم گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
بستی زميں کی کيسی ہنگامہ آفريں ہے
يوں سو گئی ہے جيسے آباد ہی نہيں ہے

شاعر کا دل ہے ليکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گيا تو کيونکر مرے فسوں سے؟