مولانا محمد منصور احمد

رمضان المبارک کے آخری دن تیزی سے گزر رہے ہیںاور مسلمانوں کی اجتماعی خوشی کا دن عید الفطر کی آمد آمد ہے ۔
رمضان کے لمحات کو قدر دانی اور دانش مندی کے ساتھ گزارنے والوں کو خوشیوں کے یہ لمحات مبارک ہوں ۔ اللہ کرے کہ یہ عید ہمارے لیے دنیا و آخرت کی مسرتوں اور بہاروں کی نوید بن جائے ۔( آمین) تہوار ، خواہ کسی بھی قوم کے ہوں ، وہ ان کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ یہ تہوار ان کی شناخت ہوتے ہیں اور لوگوں کے بکھرے ہوئے افراد کی شیرازہ بندی کر کے ان کو ایک لڑی میں یہی تہوار پرو دیتے ہیں ۔
عید الفطر کی رات کو ہمارے ہاں عام طور پر ’’چاند رات‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے بڑی بے دردی سے مختلف خرافات کی نذر کر دیا جاتا ہے،وہ مسلمان بھی جو ماہِ مبارک کو بڑے اہتمام سے گزارتے ہیں اس رات ایسے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ مہینہ بھر کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ روزوں کے ذریعے دل اور نگاہ کی جو پاکیزگی نصیب ہوئی ہوتی ہے وہ ایک ہی رات میں غارت کر دی جاتی ہے۔شیطان جو پورا ایک مہینہ قید گزار کر آیا ہوتا ہے وہ بھی چن چن کر اپنے بدلے چکاتا ہے ، اس لیے ’’ چاند رات‘‘ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کر لیںتاکہ گناہوں کا سیلاب ہماری تمام نیکیوں کو بہا کر نہ لے جائے ، عید الفطر کے دن اور رات اللہ تعالیٰ کی نظر میں کیا اہمیت رکھتے ہیں ، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث ِ پاک سے لگائیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام ( آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔
یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس رب کریم کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔
پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں:
کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اوربندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے :
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔
دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔
میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا(اور ان کو چھپاتا رہوں گا)
میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔
بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔
پس فرشتے اس اجروثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (رواہ ابوالشیخ بن حبان فی کتاب الثواب)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں(عبادت کیلئے )جاگے۔اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی۔ لیلۃ التر ویہ (آٹھ ذی الحجہ کی رات)لیلۃ العرفہ (۹ ذی الحجہ کی رات) لیلۃ النحر (۱۰ ذی الحجہ کی رات) شب برأت (پندرہ شعبان المعظم کی رات)، عید الفطر کی رات۔
فقہاء کرام نے بھی عیدین کی رات میں جاگنا مستحب لکھاہے۔ ’’ماثبت بالسنہ ‘‘میں امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ پانچ راتیں دعا ء کی قبولیت کی ہیں:جمعہ کی رات، عیدین کی راتیں، غرہ رجب کی (پہلی تین) راتیں اور نصف شعبان کی رات۔
’’چاند رات‘‘ کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے کاموں میں لگانے کے بعد عید الفطر کے دن جو تیرہ کام مسنون ہیں، اُن کا بھی اہتمام کر لینا چاہیے،وہ کام یہ ہیں:
(۱)شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا (۳)مسواک کرنا (۴)اپنے کپڑوں میں سے سب سے عمدہ لباس پہننا (۵)خوشبو لگانا (۶)صبح کو بہت جلدی اٹھنا (۷)عیدگاہ جلد از جلد پہنچنا (۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجور کھانا (۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کردینا (۱۰)نماز عید، عیدگاہ میں ادا کرنا (یعنی بلا عذر مسجد میں نہ پڑھنا) (۱۱)عیدگاہ جانے اور آنے کیلئے راستہ تبدیل کرنا (۱۲)اگر زیادہ دور نہ ہوتو پیدل جانا (۱۳)عیدگاہ جاتے ہوئے راستے میں اﷲاکبراﷲ اکبرلا الہ الا اﷲ واﷲ اکبراﷲ اکبر وﷲ الحمد آہستہ آواز سے پڑھنا۔
رمضان المبارک کے بعد نصیب ہونے والا خوشیوں اور مسرتوں کا یہ دن ، صرف ایک رسمی تہوار ہی نہیں بلکہ اہل ایمان کو اپنی خوشیاں منانے کا ایک ڈھنگ بھی سکھاتا ہے ۔ اس کے آنے سے پہلے تمام صاحب استطاعت لوگوں پر لازم کر دیا جاتا ہے کہ وہ صدقہ ٔ فطر کی شکل میں اپنے ضرورت مند بھائیوں کو ان خوشیوں میں شریک کریں ۔ ایک حدیث پاک کی رو سے انسان کے روزے اس وقت معلق رہتے ہیں اور درجۂ قبولیت نہیں پاتے جب تک وہ صدقہ ٔ فطر نہ ادا کرے ۔ گویا اسلام نے اہل ثروت مسلمان کو یہ درس دیا کہ وہ خوشی کوئی خوشی نہیں جس میں ایک گھر میں شادیانے بج رہے ہوں اور دوسرے گھر میں کھانے پینے کی اشیاء بھی میسر نہ ہوں ایک شخص تو اپنے اہل خانہ میں ‘ نعمتوں ،راحتوں اور آسائشوں میں مست و مگن ہو مگر اس کے پڑوس میں رہنے والے فاقہ کشی پر مجبور ہوں ۔ صدقہ ٔ فطر کی شکل میں ہمیں یہ احساس عطا کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مصیبت اور پریشانی سے لا تعلق ہو کر نہیں رہ سکتا بلکہ وہ دوسروں کی ضرورت اور حاجت کو اپنی خوشی منانے پر مقدم رکھتا ہے ۔
پھر مسلمانوں کا یہ مقدس تہوار اس لحاظ سے بھی ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ اس دن کا آغاز دو رکعت نماز عید واجب ادا کرکے کیا جاتا ہے جس میں چھ زائد تکبیرات ہوتی ہیں ، گویا مسلمانوںکو یہ سبق سکھایا جا رہا ہے کہ خوشی کا یہ مطلب اور مفہوم نہیں کہ انسان اپنے خالق و مالک کو ہی بھلا بیٹھے اور خوشیاں منانے کی آڑ میں اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہو جائے بلکہ خوشی کے دن سب سے پہلے اس رب کا شکر ادا کرے جس نے اسے خوشی کا یہ موقع نصیب فرمایا ۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :
لیس العید لمن لبس الجدید
انما العید لمن خاف الوعید
یعنی حقیقی عید اور خوشی اُس شخص کی نہیں جس نے صرف نئے کپڑے زیب تن کر لیے اور اس دن زرق و برق پہن لیا بلکہ اصل عید اس شخص کی ہے جو رب کی وعید سے ڈر گیا اور اس نے اپنے اعمال کی اصلاح کر لی ۔
اس لئے ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں عید ہی نہیں خوشی کے دیگر مواقع جیسے شادی بیاہ وغیرہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیوں سے بچنا چاہیے اور اپنے آپ کو ان اقوام پر قیاس نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے اپنے مذہب کے احکامات کو پس پشت ڈال کر گانے بجانے اور دیگر خرافات کو موجِ مستی کا نام دیدیا ہے ۔ اگر انسان کی ہوس کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو پھر وہ ہی کچھ ہوتا ہے جو آج یورپ میں ہو رہا ہے جس کے بارے میں سن کر بھی انسان کا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے ۔
آج جب ہم اپنے اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منانے جا رہے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں کے جسد ملی کا ایک بہت بڑا حصہ ان خوشیوں سے محروم ہے اور وہ کفار کے ظلم و ستم کا شکار اور اپنوں کی بے حسی کا شاہکار بن چکے ہیں ۔ آج فلسطین سے لے کر عراق تک اور کشمیر سے لے کر افغانستان تک فرزندانِ توحید جس جبر مسلسل کا شکار ہیں ‘ وہ ایک حساس دل کی نیندیں اڑانے اور اسے بے قرار کرنے کیلئے کافی ہے ۔
پاکستان کی عزت و ناموس ڈاکٹر عافیہ صدیقی جسے ہمارے ایک نا عاقبت اندیش
اور فا ترالعقل حکمران نے اپنے ہوسِ زرکی تسکین کیلئے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا آج وہ جس کرب وابتلا ء کا شکار ہے ‘ کیاکوئی دردِ دل رکھنے والا شخص جو اس بے کس بہن اور بیٹی کے غم سے آشنا ہے جسے درندہ صفت ‘ شرم و حیا سے عاری ‘ کمینے امریکی فوجی بر ہنہ تلاشی پر مجبور کرتے ہیں ‘ کیا کوئی پاکستانی ان حالات سے باخبر ہونے کے بعد بھی میٹھی نیند سو سکتا ہے ۔
ہم عید ضرور منائیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں کہ :
٭ قبلہ اول مسجد اقصیٰ بھی ابھی تک یہودیوں کے پنجہ ٔستم میں سسک رہی ہے ۔
٭ فلسطینی مسلمان اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ساٹھ برس سے زیادہ بِتا چکے ہیں مگر تمام دنیاوی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں ۔
٭ افغانستان پر صلیبی پرچم ابھی تک لہرا رہا ہے اور دنیا بھر کے کافر وہاں اسلام کا راستہ روکنے کیلئے متفق و متحد ہیں ۔
٭ کشمیر میں آج بھی مسلمان ماں ‘ بہن اور بیٹی کی عزت و عصمت محفوظ نہیں ۔
٭ عراق اور شام میں اس وقت اہل ایمان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور روسی بمباری نے ہر سمت تباہی مچا رکھی ہے ۔
٭ ہاں ! اپنوں اور غیروں کے زیر حراست وہ عظیم لوگ جنہوں نے اپنا آج ‘ امت مسلمہ کے کل پر قربان کر دیا ہے ۔ ان کو فراموش کر دینا بھی اخوت اسلامی کی توہین ہے۔
٭ محاذوں پر بر سرِ پیکار مجاہدین اور اپنی جوانیاں راہِ وفا میں لٹانے والے شہداء کرام کے گھرانے اس خوشی کے دن میں ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں ۔
٭اپنے اڑوس پڑوس ، اہل محلہ اور رشتے داروں میں سے جو مستحق اور غریب لوگ ہوں ، انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کریں ، اس سے آپ کی خوشیاں بھی دوبالا ہو جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو حقیقی خوشیوں بھری سینکڑوں عیدیں نصیب فرمائے ۔ آمین
٭…٭…٭