’’انسانیت‘‘ کے نام پر…
مولانا محمد منصور احمد


ہمارے ماحول اور معاشرے میں آج میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، کبھی میڈیا لوگوں کے لئے اطلاعات اور خبروں کا ذریعہ رہا ہو گا لیکن آج بحیثیت مجموعی یہ اُس بد مست ہاتھی کی طرح ہے، جو جس طرف بھی رُخ کرتا ہے، سب کچھ روند ڈالتا ہے اور اس کے سامنے آنے والی کوئی چیز سلامت نہیں رہتی۔ نہ مذہب ، نہ تہذیب، نہ گفتار ، نہ کردار ، کچھ بھی نہیں۔ میڈیا کا عام طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے ایک بات کو ہزاروں اسلوب سے بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ ایک بات اور نظریہ خواہ وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کتنا ہی غلط اور مجہول کیوں نہ ہو، جب وہ بار بار کان میں پڑتا ہے تو دل میں اس کے لئے گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اسی بے بنیاد بات اور نظریہ کو جو کل تک کسی کو معلوم بھی نہیں تھا، ایسے اجماعی اور متفقہ عقیدے کی شکل دیدی جاتی ہے، جس کا انکار گویا بدترین کفر یا جہالت کے مترادف ہو۔
میڈیا کے ذریعے ایسے بہت سے غلط نظریات پروان چڑھائے جا چکے ہیں، جن کے خلاف اب لب کشائی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ہے۔ عوام تو میڈیا کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا سب سے پہلے شکار ہوتے ہیں لیکن وہ دانشور اور سمجھ دار لوگ جو اصل صورت حال کو سمجھتے ہیں، وہ بھی اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ انہیں میڈیا کی مخالفت کا انجام پتہ ہوتا ہے کہ ’’آزادی اظہارِ رائے ‘‘ کا پرچار کرنے والے میڈیا کے خلاف اگر زبان و قلم سے ایک لفظ بھی نکل گیا تو تمام چینلز ایسے کاٹ کھانے کو دوڑیں گے کہ ’’الامان و الحفیظ‘‘
ہمارے میڈیا کے زبردستی عوام پر ٹھونسے گئے تمام نظریات اور خیالات میں ایک بات بالکل قدر مشترک ہے اور وہی تمام غلط فہمیوں کی بنیاد ہے۔ یہ لوگ جب بھی کوئی نظریہ یا خیال پیش کرتے ہیں تو اس کی مکمل تعریف ، وضاحت اور تنقیح ہرگز نہیں کرتے بلکہ اس کو مجمل اور مبہم طور پر ایک نعرے کا رنگ دے دیتے ہیں۔
یہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے نظریات اور خیالات کی حدود و قیود بیان کیں تو نہ صرف یہ کہ ہماری ساری چوری پکڑی جائے گی بلکہ کوئی بھی مسلمان ہماری بات سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ ان کے طریقہ واردات کی کامیابی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ لگی لپٹی چند مہمل باتوں اور بے معنی جملوں کو بار بار دہرایا جاتا رہے اور سامعین و ناظرین کو اتنی مہلت ہی نہ دی جائے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے کر ان کی باتوں میں جھول اور ان کے نظریات کا سقم پکڑ سکیں۔
آئیں!اس بات کی مزید وضاحت ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ’’انسانی حقوق ‘‘ کا نعرہ گویا ایک ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ لفظ اتنی کثرت سے بولا اور سنا جاتا ہے کہ کانوں کے لئے یہ بالکل مانوس اور دل و دماغ کے لئے بھی بالکل قابل قبول بن چکا ہے۔اسی کی آڑ میں حدود و تعزیرات اور دیگر کئی اسلامی احکامات کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور پرو پیگنڈے کے اس طوفان سے متاثر ہو کر بہت سے مسلمان بھی مسلمہ اور متفقہ اسلامی احکامات کا صرف اس لئے انکار کر بیٹھتے ہیں کہ وہ ان کی دانست میں ’’انسانی حقوق ‘‘ کے خلاف ہوتے ہیں۔
’’انسانی حقوق ‘‘ کو ایک سیاسی نعرے کی حیثیت دینے والے جب چاہیں گے ، جیسے چاہیں گے استعمال کریں گے لیکن کبھی بھی اس بات کی وضاحت نہیں کریں گے کہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی تعریف کیا ہے اور وہ کون سے حقوق ہیں، جو قابل قبول ہیں اور ایسے کتنے حقوق ہیں، جن کو قبول کرنا پورے معاشرے اور انسانیت کے لئے تباہ کن ہے۔ وہ کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ ایک بے گناہ معزز شہری اور جرائم پیشہ افراد کے حقوق میں کیا فرق ہے؟
اگر کوئی شخص اُٹھے اور یوں کہے کہ میں ایک غریب شخص ہوں اور میرے حصے کا مال سوسائٹی کے مالدار افراد نے غصب کر رکھا ہے، اس لئے یہ میرا حق ہے کہ میں ان سے ڈاکے، چوری اور قتل و غارت گری کے ذریعے مال حاصل کروں تو آخر انسانی حقوق کا وہ کونسا فارمولا ہے جو اسے غلط قرار دے سکے؟ اسی طرح اگر کوئی فرد یا گروہ دیگر جرائم اور بدکاریوں کو اپنا حق قرار دے کر ان کا ارتکاب شروع کر دے تو آخر ’’انسانی حقوق‘‘ کے یہ علمبردار کس فلسفے سے ان کی تردید کر سکتے ہیں؟
ہمارے میڈیا کے پھیلائے ہوئے نظریات اکثر ایسے ہی مجہول ہوتے ہیں کہ عالمی طاقتیں موم کی ناک کی طرح جس طرف چاہتی ہیں، انہیں موڑ لیتی ہیں اور یہ نظریات کبھی بھی کسی کمزور ملک کے کام نہیں آتے۔ آپ نے میڈیا پر اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ ’’ ہم تشدد کی پُرزور مذمت کرتے ہیں‘‘ ۔ اب پہلی نظر میں یہ کتنا خوبصورت اور دل و دماغ کو اپیل کرنے والا جملہ ہے لیکن اس جملے کی صدائے باز گشت آپ کو تب ہی میڈیا پر سنائی دے گی جب کوئی مظلوم قوم یا ملک ظالموں سے نجات پانے اور انتقام لینے کے لئے کوئی کامیاب کارروائی کریں گے۔ لیکن اگر امریکہ گوانٹاموبے میں انسانوں کو پنجروں میں بند کر کے انسانیت کا مذاق اڑائے یا روس شام کے شہروں پر بمباری کر کے انہیں قبرستانوں میں تبدیل کرے ، ہمارے میڈیا کی نظر میں یہ نہ کوئی تشدد ہو گا اور نہ ہی اس کی مذمت کی وہ ضرورت محسوس کریں گے۔
انسانی حقوق کا نعرہ ہو یا آزادی اظہار رائے کا نظریہ، خواتین کو مادر پدر آزادی دینے کی بات ہو یا فحاشی و عریانی کے مسئلہ پر بحث و مباحثہ، ان میڈیائی مفکرین اور دانشوروں کی مجہول اور مبہم باتیں سن کر ہمیشہ وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے، جو کبھی بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ ایک استاذ نے شاگرد سے پوچھا کہ بیٹا! تمہارا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا:استاذ جی! ڈاک خانے کے سامنے۔استاذ نے پھر پوچھا کہ بیٹا! ڈاک خانہ کہاں ہے؟ اس نے سعادت مندی سے جواب دیا کہ میرے گھر کے سامنے ۔استاذ نے ایک مرتبہ پھر پوچھا کہ بیٹا! گھر اور ڈاک خانہ دونوں کہاں ہیں؟ شاگرد نے بڑے احترام سے جواب دیا کہ جناب! دونوں آمنے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ استاذ کو ایسے مجہول جوابات سے کبھی بھی گھر کا پتہ معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی کو اصطلاحی زبان میں ’’ تعریف المجہول بالمجہول ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جو بالکل ایک بے کار کام ہے۔
حالیہ دنوں میں اس مجہول پسندی کا انتہائی مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب یہ نعرہ سننے کو ملا کہ ’’میرا مذہب ’’انسانیت ‘‘ ہے‘‘۔یہ نعرہ ایک طوفان کی طرح اٹھا اور لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا۔ لوگوں نے بلا سوچے سمجھے اس بات کو نقل کیا اور اتنا غور و فکر کرنا بھی گوارہ نہ کیا کہ آخر یہ ’’انسانیت‘‘ کونسا مذہب ہے؟ اس مذہب کی تعریف اور تاریخ کیا ہے؟ اس کی مفصل اور واضح تعلیمات کیا ہیں؟ اس مذہب کا بنیادی فلسفہ زندگی کیا ہے اور اس مذہب کی روشنی میں اچھائی اور برائی کے پیمانے کیا ہیں؟ یہ مذہب اپنے احکام و مسائل کن اصولوں سے کشید کرتا ہے اور فرماں بردار اور نافرمان لوگوں کے لئے جزا و سزا کا طریقہ کار کیا ہے؟ یہ اور ایسے ان گنت سوالات ہیں جن کا جواب آپ کو سوائے خاموشی کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ کیا ایک ایسا مذہب جو جہالت کے گہرے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو اور زندگی کے تفصیلی نہیں، بنیادی سوالات کے جوابات دینے سے بھی عاجز ہو ، وہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ اس کو جیتے جاگتے کروڑوں انسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سونپ دیا جائے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ’’میرا مذہب انسانیت ہے‘‘ کی دیکھا دیکھی پیروی کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ نعرہ اکیسیوں صدی کی ایجاد اور ۲۰۱۶؁ء کی پروڈکٹ ہے۔ان بندگان خدا کی اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ شیطان اسی راہ سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کو گمراہ کر چکا ہے۔ نامور مغل بادشاہ اور دین الٰہی کے بانی اکبر کی باتیں بھی اسی طرح کی ہوتی تھیں اور وہ بھی ’’انسانیت ‘‘ کو ہی اپنا مذہب کہتا تھا۔ یہ موقع دین الٰہی کی تفصیلات بیان کرنے کا نہیں لیکن اتنا تو تاریخ ہند کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ نظریہ جسے بزور طاقت انسانوں پر تھوپا گیا تھا، ایک فقیر منش، مرد درویش حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا اور پھر آپ ہی کی محنتوں کی بدولت چند سالوں بعد ہی بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ جیسا متقی اور خدا ترس حکمران سرزمین ہند کو نصیب ہوا، جن کے مرتب کروائے ہوئے فقہ حنفی کے عظیم الشان ذخیرے ’’فتاوی عالمگیری‘‘ سے آج فقہ اسلامی کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
انسانیت کو بلا سوچے سمجھے مذہب قرار دینے والے اگر غور فرمائیں تو انہیں پتہ چلے کہ ’’انسانیت‘‘ کے نام پر دراصل اسلام کو تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلام صرف ایک مذہب نہیں جو ہمیں عبادات کو طریقہ سکھاتا ہو بلکہ زندگی گزارنے کے لئے یہ ایک مکمل دین ہے اور صرف یہی دین آج اپنی اصل بنیادوں پر کھڑا ، مادہ پرست دنیا کا مقابلہ کر رہا ہے جبکہ دنیا کے دیگر تمام مذاہب موجودہ مادی تہذیب کے سامنے ہتھیار پھینک چکے ہیں، اسی لئے دنیا بھر کی تمام باطل قوتوں کے تیروں کا رخ اسلام ہی کی طرف ہے۔
یہ دین اسلام ہی ہے جو ہمیں انسانیت کے بارے میں سب سے زیادہ معتدل اور حسین تعلیمات عطا کرتا ہے۔ دنیا کا کون سا مذہب ہو گا ، جس نے مخلوق خدا کی شان یوں بیان کی ہو، جیسے پیغمبر اسلام ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ ایک حدیث پاک ہے:
الخلق عیال اللّٰہ فاحب الخلق الی اللّٰہ من احسن الی عیالہ ( مشکوٰۃ )
’’مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس لئے تمام مخلوق میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے‘‘
’’انسانیت‘‘ کو اپنا مذہب قرار دینے والوں نے جتنا انسانیت کو شرمسار کیا ہے، اتنا تو افریقہ کے جنگلات کے درندے بھی نہیں کر سکتے۔ دنیا میں انسانوں کو طرح طرح کی اذیت ناک سزائیں دینے، عقوبت خانوں میں درندگی کا ریکارڈ بنانے والے، ہنستی مسکراتی بستیوں کو خاک و خون میں ملانے والے اور اپنے بزرگوں کے لئے اولڈ ہوم بنانے والے، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مذہب انسانیت کا علمبردار کہتے ہیں۔ اسلام نے کفار کے ساتھ بھی جس مبنی بر انصاف برتاؤ کی تعلیم دی ہے وہ ہی اس کے انسانیت نواز ہونے کی سب سے بڑے دلیل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لا ینھٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطواالیھم ان اللّٰہ یحب المقسطین انما ینھٰکم اللّٰہ عن الذین قتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظلمون( الممتحنۃ:۸،۹)
’’ اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ کوئی نیکی کا اور انصاف کا معاملہ کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے کہ تم ان سے دوستی رکھو۔ اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے، وہ ظالم لوگ ہیں‘‘

موجودہ دور میں اس بات کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ہم مستند علماء کرام سے دین کی کم از کم اتنی تعلیم ضرور حاصل کریں کہ میڈیا ہمارے عقیدے اور نظریے پر شب خون نہ مار سکے۔اسی طرح اگر ہم نے اپنی اولاد کے لئے عصری تعلیم کی راہ منتخب کی ہے تو انہیں ساتھ دینی تعلیم سے ضرور آراستہ کریں تاکہ لادین قوتوں کے لئے وہ لقمہ تر نہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭