حضرت محمدﷺ بحیثیت منصف اعظم(قاضی)۔
انسانی زندگی کا پہلا اور اہم تعلق عدل وانصاف سے ہے اسی لئے شریعتِ خداوندی کا تمام دارومدار عدل و انصاف پر ہے۔
کسی بھی معاشرے میں انصاف ہی ایمان میں پختگی اور کردار میں استحکام پیدا کرتا ہے۔اور یہ استحکام صرف قرآنی اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی حاصل ہوتا ہے اس لئے عدل وانصاف، شریعت کی روح ہے۔
ہمارے نبیﷺ نے مختصر سی مدت میں ایک مثالی حکومت قائم کی تھی مغرب کا مورخ آخر کیوں اُس دور کو مثالی کہتا ہے ؟
وجہ صرف یہ تھی کہ وہ حکومت الہیٰ سے عدل و انصاف پر قائم تھی۔
اسلام کے اولین سنہری دور میں منصفِ اعظم (چیف جسٹس) کے فرائض آنحضرتﷺ خود بہ نفسِ نفیس انجام دیتے تھے تاکہ عدل وانصاف کی روح زخمی نہ ہو ۔
انصاف عام تھاور ہر جاندار کو بے دریغ دیا جاتا تھا۔ عہدِ رسالت میں عدالتِ عظمیٰ کا مرکزی دفتر مدینہ تھا۔آپ ﷺ کے دور میں انصاف سب کے لئے برابر تھا۔
وہ عظیم خطبہ تو آپ سب کو ہی یاد ہوگا جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا:۔
"تم سے پہلی قومیں اسی لئے تباہ ہو گئیں ، کہ جب کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے تھےاور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اُسے سزادی جاتی تھی۔
خدا کی قسم! اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اُس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے!"۔
نظام معاشرہ، نظام ریاست، اور نظام کائنات کی بقاء کے لئے عدل اور صرف عدل کی اشد ضرورت ہے جیسے نبی اکرمﷺ نے اپنے دورِ حیات میں انجام دیا۔
Bookmarks