حضرت بلال
ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺷﯿﺌﺮﻧﮓ ﮐﯽ ﮨﮯ .
ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ
ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺷﮑﺮﯾﮧ
جزاک اللہ
خاصی دیر رونے کے بعد اذان کے نامکمل رہ جانے کے احساس نے انھیں اپنے آپ پر قابو پانے میں مدد دی اور انھوں نے گلوگیر اور لرزتی آواز میں باقی کے کلمات کہہ کر اذان مکمل کی
----------
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
آخر بات
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
- - - Updated - - -
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی اس حوالے سے اس طرح اپنے دل کی بات ہمارے ساتھ شئیر کرتےہیں
----------
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری
شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا
اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسی پر
تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند
چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
Last edited by AsifSattarvi; 31st July 2016 at 12:17 AM. Reason: حوالہ درج کیا گیا
وعلیکم السلام
اللہ اکبر
الہٰی آمین
جزاک اللہ
شکریہ برادر اگر آپ کے پاس حوالہ ہے تو آپ شئیر کرسکتے ہیں
میں نے تو اپنی سی کوشش کی
جزاک اللہ
Bookmarks