مولانا محمد منصور احمد
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دو ایمانی صفات بہت محبوب ہیں اور جو شخص ان صفات کو اپنا لیتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے ۔ ان صفات کیلئے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔
کہیں ان دو ایمانی صفات کو ’’ الحب للّٰہ والبغض للّٰہ ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کیلئے محبت اور اللہ تعالیٰ کیلئے بغض ) کہا گیا ہے ۔
کہیں ان صفات کو ’’ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین‘‘ ( نرم دل ہیں مسلمانوں پر ، زبردست ہیں کافروں پر ) سے تعبیر کیا گیا ۔
کہیں ان دونوں صفات کو ’’ اشداء علی الکفاررحماء بینھم ‘‘ (کافروں پر سخت ، آپس میں مہربان) کا عنوان دیا گیا ۔
حضرات ِ صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام جہاں دیگر ایمانی صفات سے مالا مال تھے ، وہیں انہیں ان دونوں صفات کا بھی اعلیٰ درجہ حاصل تھا ۔ تاریخ ِ اسلام کی یہ عظیم ہستیاں جیسے کفار کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے ، ویسے ہی یہ لوگ باہم شیر و شکر اور مہربان تھے
محرم الحرام کا مہینہ آتے ہی بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایک نا خوشگوار بحث رحمت دو عالمﷺ کے ان جاں نثاروں کے بارے میں چھیڑدی جاتی ہے اور بہت سے لوگ ان عظیم المرتبت ہستیوں کے بارے میں دلوں میں بغض و عناد رکھ کر دولت ِ ایمان سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
صحابہ کرام ہوں یا اہلِ بیت عظام‘ یہ دونوں قابلِ احترام طبقات ہمارے ایمان کا حصہ ، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے دلوں کا سرور ہیں ۔ یہ صرف تاریخی شخصیات نہیں کہ تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں جو رطب و یا بس اور صحیح و غلط آیا ہے‘ ہم اُسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیں ۔ یہ تو وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی منقبت اور تعریف خود رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اور رسولِ اکرمﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں بیان فرمائی ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے سچے رسولﷺ کی محبت ہو اور پھر وہاں صحابہ کرام یا اہلِ بیت عظام کا بغض بھی ساتھ جمع ہو جائے ۔
ذرا دیکھیں تو سہی اللہ تعالیٰ کے سچے رسولﷺ کن الفاظ سے اپنی امت کو ان دونوں طبقات کی عظمت اور احترام کی تلقین فرما رہے ہیں ۔
صحابہ کرامؓ کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لا تتخذوھم من بعدی غرضاً ، فمن احبھم فبحبی احبھم و من ابغضھم فببغضی ابغضھم (الترمذی)
( لوگو! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں اپنی تنقید اور ملامت کا نشانہ نہ بنا لینا ۔ جس نے میرے صحابہ سے محبت کی اُس نے میری محبت کی وجہ سے انہیں چاہا اور جس نے میرے صحابہ سے بغض رکھا تو اُس نے میرے بغض کی وجہ سے ہی اُن سے بغض رکھا)
اہلِ بیت عظام کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے اپنے ایک خطبہ کے آخر میں دو مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا :
اذکرکم اللّٰہ تعالیٰ فی اھل بیتی ، اذکر کم اللّٰہ تعالیٰ فی اھل بیتی ( مسلم)
( لوگو! میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں ۔ لوگو! میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں)
یعنی تم ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کسی طرح بھی انہیں تکلف نہ پہنچانا ۔
اندازہ لگائیں کہ جن ہستیوں کے بارے میں رحمت ِ دو عالم ﷺ اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے رہے ہوں اور اُن کے احترام و تعظیم کی تلقین کر رہے ہوں ، کوئی شخص ان عظیم شخصیات کی برائیاں شروع کر دے ‘ ان کے من گھڑت عیوب کو جمع کر کے ان کی تشہیر کرے اور امت کو ان حضرات سے بد گمان کرنے کا بیڑا اٹھالے تو اس کی بد قسمتی میں کیا شک و شبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے ۔
صحابہ کرام اور اہلِ بیت ِ عظام میں بھی باہمی طور پر بھی انتہائی محبت اور تعظیم کا تعلق تھا ۔ یہ حضرات ایک دوسرے کے دوست ، مددگار ، رشتے دار ، مشیر اور وزیر رہے۔ تاریخ کی کتابوں میں بھی ان کے جذبات ِ اخوت اور باہمی یگانگت کے ایسے ٹھوس دلائل موجود ہیں کہ کوئی متعصب سے متعصب شخص بھی اُن کے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا ۔
اسی اکرام و احترام کی بنیاد پر سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، خلافتِ صدیقی اور خلافت ِ فاروقی میں اہم ترین عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں ۔ اس زمانے کا کوئی اہم فیصلہ ایسا نہیں جس میں آپ رضی اللہ عنہ کا مشورہ شریک نہ ہو ۔ یہی باہمی جذبات ِ محبت ہیں جن کی بناء پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اہل بیت کے ساتھ حسن ِ سلوک میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال کرو‘‘۔ ( صحیح بخاری ، فضائل اہل بیت )
یہ بھی اہل بیت کے احترام و اکرام کا ہی ایک اظہار ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دورِ حکومت میں سیدنا حضرت حسن اور سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ان کے ہم عمر صحابہ کرام کے بجائے بدری صحابہ کرام کے برابر حصہ دیا کرتے تھے ( سیر اعلام النبلاء )
ان حضرات کے آپس میں مثالی تعلقات کی بے شمار مثالیں تاریخ کی کتب میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ دیکھیں انسان اپنی اولاد کا نام ، انہی شخصیات کے نام پر رکھتا ہے ، جن سے وہ انتہائی محبت کرتا ہے اور دل سے انہیں چاہتا ہے ۔ مسلمان صدیوں سے اپنے بچوں، بچیوں کے نام صحابہ کرام و اہل بیت عظام نیز علماء ، صلحاء کے ناموں کے مطابق رکھتے آئے ہیں لیکن کوئی گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی ایسا نہیں ہو گا جو اپنی اولاد کا نام نمرود ، فرعون ، قارون یا مشرکین مکہ میں سے کسی کے نام پر رکھنا گوارہ کر لے۔
یہ تاریخ حقیقت ہے کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کے نام سیدنا ابو بکر ؓ ، سیدناعمرؓ ، سیدنا عثمانؓ کے ناموں پر رکھے ۔
آپ ؓ کے صاحبزادے ابو بکر بن علی بن ابی طالب میدانِ کربلا میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے ۔ ان کی والدئہ محترمہ کا نام لیلیٰ بنت مسعود نہشلیہ تھا ۔
آپ ؓ کے ایک اور صاحبزادے عمر بن علی بن ابی طالب ہیں ‘ جن کی والدئہ محترمہ ام حبیب الصہباء تغلبیہ ہیں ۔
آپؓ ہی کے ایک اور صاحبزادے
عثمان بن علی بن ابی طالب ہیں ۔ یہ بھی شہداء کربلا میں شامل ہیں ۔ ان کی والدہ ام البنین بنت حزام الکلابیہ ہیں ۔
پھر نام رکھنے کا یہ سلسلہ صرف حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں بلکہ بعد میں یہی طرزِ عمل سیدنا حضرت حسن اور سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہما اور دیگر اہل بیت کا رہا ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے کہ یہ حضرات اپنے دل میں اکابر صحابہ کرام کیلئے انتہائی محبت و مودت اور اخلاص کے جذبات رکھتے تھے ۔ چنانچہ آپ کو شہداء کربلا کی فہرست میں ابو بکر بن حسنؓ بن علیؓ اور عمر بن حسنؓ بن علیؓ کے اسمائِ گرامی بھی نظر آئیں گے ۔
پھر باہمی تعلقات کا یہ مبارک سلسلہ صرف نام رکھنے تک محدود نہیں بلکہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظام کے درمیان بے شمار رشتے داریوں تک پھیلا ہوا ہے ۔ ان حضرات کی باہمی رشتے داریاں اور پھر نسل در نسل رشتے داریوں کے سلسلے یہ بات ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ یہ حضرات ’’ رحماء بینہم ‘‘ کی ایمانی صفت سے مالا مال تھے ۔
آپ نے اگر ان باہمی تعلقات ِ محبت کی تفصیل پڑھنی ہو تو اردو زبان میں محقق کامل‘ حضرت مولانا محمد نافع ؒ کی کتاب ’’ رحماء بینہم ‘‘ ایک بے مثال کتاب ہے ۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی اب بیروت سے شائع ہو چکا ہے ۔ اسی طرح ایک عربی فاضل شیخ ابو معاذ احمد بن ابراہیم کی کتاب ’’ الاسماء و المصاہرات بین اہل البیت والصحابۃ‘‘ بھی تحقیقی کاوش ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے محبوبوںکی محبت نصیب فرمائے ‘ اُن کی شان میں ادنیٰ بے ادبی سے بھی ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
Bookmarks