کہتے ہیں کہ شیخ سعدی ایک مرتبہ کھانے کی دعوت میں گئے ، انھوں نے جو لباس زیب تن کر رکھا تھا وہ بظاہر درویشانہ تھا ، لہذا اس مادیت پرست دنیا کے لوگوں نے ان کی مطلق پروا نہیں کی اور سمجھا کہ وہ کوئی خادم ہیں ۔۔
خیر شیخ صاحب کو دلی رنج ہوا ، اس سے اگلے دن پھر انھیں اسی دعوت میں آنے کے لئے کہا گیا تو وہ خوب تیار ہو کرلباس فاخرہ پہن کر اس محفل میں پہنچے تو بس جناب وہ اپنا استقبال دیکھ کر حیران رہ گئے ، جہاں انھیں تخت پر بٹھایا گیا اور انواع و اقسام کے کھانے ان کے سامنے پیش کئے گئے ، ساتھ ہی ساتھ بیشتر افراد ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے ۔۔
شیخ سعدی نے کیا کیا کہ اپنی عبا کا ایک کونا پکڑا اور اسے سالن میں ڈبونے کا ارادہ ہی رکھتے تھے کہ میزبان کہنے لگا کہ شیخ صاحب کیا کرتے ہیں ؟ تو شیخ سعدی نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ ’’میں کل محفل میں آیا پھٹے پرانے کپڑے تھے کسی نے نہیں پوچھا آج سب میری آئو بھگت کر رہے ہیں تو وجہ یہی ہے کہ اس دعوت پر مجھے نہیں میرے کپڑوں کو مدعو کیا گیا ہے ۔ اسلئے میں چاہتا ہوں کہ یہ کھانا میرا لباس ہی کھا لے ‘‘
المختصر تمام حاضرین اس بات سے بہت شرمسار ہوئے اور انھوں نے شیخ سعدی سے معذرت بھی کی ۔ شیخ سعدی والی صورتحال آپ کو بھی پیش آسکتی ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے برینڈڈ کپڑوں اور چیزوں کو اپنی زندگی میں اتنا شامل کر لیا ہے کہ ہم انسان کو اہمیت دینا ہی بھول گئے ہیں ۔
برینڈڈ کپڑوں ، جوتوں ، اور دیگر اشیا نے اب امیر اور غریب طبقے کے درمیان ایک واضح حد فاصل کھینچ دی ہے ، انہی باتوں سے یاد آیا کہ گذشتہ دنوں ہماری ایک جاننے والی نے ہمیں ایک سوٹ بطور تحفہ پیش کیا اور خاص طور پر تاکید کی کہ یہ فلاں مشہور ترین برینڈ کا ہے لہذا اسکو دھونے میں خاص احتیاط برتنا ، اگرچہ کہ برینڈ کا نام اسکے لفافے پر بھی موجود تھا اور کپڑوں پر مہر بھی لگی تھی ۔۔۔۔۔۔
آج کل اتنا برینڈ برینڈ ہو گیا ہے کہ لوگ کا بس چلے تو کفن بھی برینڈ کا مانگ لیں ، لیکن شاید یہ شکر ہے کہ اللہ تعالی کا انصاف ہے کہ کفن برینڈڈ نہیں ، قبر برینڈڈ نہیں ، کفن کا ایک سا رنگ ہے اور کفنانے کا طریقہ بھی ایک ہی ہے ، قبر کی زمین بھی سبھی کی ایک گز ہی ہے ۔ چاہے کتنا ہی بڑا مقبرہ بنوا لیں یا چئیر مین کا لٹھا کفن کے لئے استعمال کریں ، اللہ تعالی کی بارگاہ میں تو کوئی برینڈڈ نہیں ہوسکتا ماسوائے تقوی اور پرہیز گاری کے تو یہ برینڈ کانشئس لوگ جب مریں گے تو کیا ہو گا پریشانی تو انھیں اس چیز کی بھی ہو گی کہ کاش کیا کفن بھی برینڈڈ نہیں ہو سکتا تھا ؟
آرٹیکل بائے: رضیہ سید
Bookmarks