#کڑکتے_قہقے
وزیر اعلی پنجاب عزت محاب شہباز شریف اپنے ترقیاتی کاموں اور ترقی یافتہ صوبے کی وجہ سے ہم پسماندہ صوبے کے باشندوں کیلیے پہلے سے اسم نکرہ کے انتہا پر تھے. کبھی میٹرو بسوں کے شور کی کڑک تو کبھی پڑھے لکھے پنجاب کے نعروں کی کڑک دور سے ہی سنتے رہتے تھے ان کے ترقی کی کڑک بریکنگ نیوز کی کڑک اور کڑکتی غداری بھی ہمارے لیے باعث سوغات تھے ہی کہ اپنے پسماندگی کی کڑک بھی سن لیے نجانے یہ کڑک دار قہقے بلوچستان کی پسماندگی پر تھے یا بلوچ طلبہ کی سوچھ پر یا اپنے غرور ترقی پر یا سی پیک پر؟ کہیں ایسا تو نہیں جو سی پیک وہ ہمیں سناتے رہتے ہیں ان کو خود اپنے ہی سی پیک سنے میں لطیفے یاد آتے ہونگے اور بے گمان قہقے نکلتے ہونگے اگر ایسا ہی ہے تو جو سی پیک پر بنگڑے ڈالتے ہیں سڑکیں بناتی ہیں فیکٹریاں لگاتی ہیں لاہور میں بیٹھ کر معاہدے دستخط کرتے ہیں اگر ان کو سی پیک پر کڑکتے قہقے آتے ہوں تو وہ جن کو پینے کو پانی نہیں کھلے سمندر مائیگیری کی اجازت نہیں v i p کی سیکیورٹی کییلے اپنے سڑکوں پر نکلنے کی اجازت نہیں تو وہ سی پیک سی پیک کا سن کر اپنے آنسوں پی کر گٹتی آواز میں اندر سے ہی سسکتے ہیں اور اگر انہی کی منہ سے سی پیک کا سن کر سی پیک کے آقا کڑکتے قہقے لگائینگے تو کڑک کی گونج کدھر تک نہ جائیگی....
اکثر و بیشتر ان کے کڑکتے بیانات ہمیں تو سنائے جاتے ہیں اگر نہ بھی سننا چائیں تو مگر جن کڑکتے قہقوں نے بے تحاشہ ماحول کو گرم اور سی پیک کی ترقی کو درم برم رکھا وہی قہقے کی کڑکتی گونج کتنا ہی اچھا ہوتا اگر سی پیک زدہ پیاسے و محروم طلبہ کے حق میں دانش اسکول کی کوالٹی تعلیم اور ترقیاتی کاموں پر پنجاب میں استعمال ہونے والی بجٹ پر ایک اظہار خیال ہوتا تو یہ بچے بلوچستان لوٹ کر اپنے وزرا اور منتخب نمائندگان کو شہباز شیر شریف کی مثالیں دے کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت یا کم از کم مطالبہ کرتے مگر افسوس کہ معصوم طالب علم جن کا تعلق ایک پسماندہ صوبے سے ہو پہلی دفعہ اس ترقی کے قریب آکر میلوں کا فاصلہ پیاسے حلق لے کر آئے تھے وہ بھی بچیاں جن کے لیے گھر سے کالج کی گیٹ تک کا آنا نجانے کتنے کڑکتے کڑوی زبانوں کی کڑوی الفاظ سے کٹھن فاصلہ ہوگا جب اس عالم میں ان کو یہ موقع دیا گیا کہ ترقی کو قریب سے دیکھ سکیں تو اس پر شریف شیر نے ایسے داڑا کہ داڑ کی کڑک نجانے پھر کسی طالب علم کو یہ قابل بناے ئے بھی کہ وہ اپنی ترقی پر سوالات اٹھانے کی جرت بھی کرے اور کوئی بچّی ....؟
خیر جو جالب کی پکار پر نہ اٹھ سکے کہ "جاگ میرے پنجاب" مگر پھر بھی نہ جاگ سکے جو فیض و فراز کے الفاظ کی گونج سے نہ جاگ سکے، جن کو شاید گہری نیند سے اٹھنے کی خواہش ہی نہ تھی کبھی . مگر ایک بلوچ طالبعلم نے ان کو ایسے جگایا کہ انھیں اپنی بے سمائی کی نیند پر ایسی ہنسی آئی کہ پھر ہنسی قہقے میں کڑک کڑک کر جلھس گئی. مگر نیک خواہشات کے ساتھ یہ امید ضرور کرتے ہیں کہ آئندہ پھر کبھی کسی بھی ترقی یافتہ حلقے کو اگر شدت سے قہقے مارنے ہوں تو بلوچ طالب علموں کو ضرور یاد کرینگے. اور اپنے لیے ان معصوم زبانوں سے نکلنے والی بے ترتیب گرائمر سے چور سوالوں کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھ کر چند اور طالب علموں کو ترقی کی زیارت نصیب کرائینگےـ ویسے بھی کڑک سے بلوچستان کے طالب علم عادی ہوچکے ہیں کیا برا ہوا اگر کڑک کا طریقہ بدل گیا. کم از کم ہوائی جہاز کا سفر تو کیا وہ بھی PIA کا اور جس لاہور کو بس نوٹوں اور ٹی وی کے اسکرینوں پر دیکھ کر ہی میگا سٹی کے طالب علم بادشاہی مسجد کی تاریخ. مینار پاکستان کی لمبائی اور شاہی قلعے کی داستانوں کو امتحانی سوالات کے لیے حفظ کیا کرتے تھے ایک کڑکتے قہقے کے بدلے کیا ہوا مگر وہ سب تو دیکھنا نصیب ہواـ اور کچھ نہ سہی "#جنے_لاہور_نہیں_ویکھیا_وہ_جمیا_ہی_نہیں" یہ طالب علم اپنی پیدائش کی ثبوت تو دے آئےـ اور ھم بلوچستان کے طالب علم چونکہ پسماندہ صوبے کے باشندے ہیں اس لیے ہر عمل کو سمجھے بغیر اس کا برا مانتے ہیں کیا پتہ یہ بھی مشہور ہو کہ 'جس کی بات پر قہقے نہ ہوں سمجھو اس نے کچھ بولا ہی نہیں' تب تو ایک ترقی کی قریبی زیارت کے کرامات کے بدلےے پیدا بھی ہوئے اور بولنا بھی سیکھ لیا اب بس انتظار ہوگا اگلے کسی مہا شیر کا جن کو قہقوں کی کڑک دلانے کیلے بلوچستان سے طالب علموں کی ضرورت ہو.....
Bookmarks