ایک بزرگ شیخ ایک شہر کی جانب سفر کر رہے تھے جو قحط کا شکار تھا۔ ان کا مرید بھی ان کے ہمراہ تھا۔ وہ پریشان تھا اسے روٹی کی کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ قحط زدہ شہر میں خدا جانے روٹی بھی میسر آئے یا نہ آئے۔ شیخ اس کی اندرونی پریشانی کو بھانپ چکے تھے۔ انہوں نے اسے سمجھایا اور اس میں قناعت پسندی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مرید کو سمجھایا کہ انسان جس قدر رزق کا دیوانہ ہے رزق اس سے کہیں بڑھ کر انسان کا دیوانہ ہے۔ رزق بھی انسان کی بے صبری کو جانتا ہے اور اسے تلقین کرتا ہے کہ بے صبرے پن کا مظاہرہ نہ کرو میں اڑ کر تم تک پہنچوں گا۔ ایک بیل کا بھی یہی حال تھا کہ وہ رزق کی فکر میں غرق تھا۔ وہ دن بھر چراہ گاہ میں ہری ہری گھاس کھاتا اور خوب صحت مند اور موٹا تازہ دکھائی دیتا اور رات بھر اس فکر میں مبتلا رہتا کہ خدا جانے صبح کھانے کے لئے کچھ میسر آئے گا یا نہیں اور اسی غم میں دبلا پتا ہو جاتا ہے۔ انسان بھی اسی بیل جیسے عمل در آمد کا مظاہرہ کرتا ہے کہ پیٹ بھرنے کے باوجود بھی بھوک کے غم میں ہلاک ہوتا رہتا ہے۔
بیل ایک عرصے تک اسی حالت میں مبتلا رہا۔ وہ دن کو چراگاہ میں چر کر موٹا تازہ ہوجاتا اور رات کو کل کی فکر میں مبتلا رہتے ہوئے دبلا پتلا ہو جاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات سما ہی نہ رہی تھی کہ میں جس خوراک کے غم میں رات بھر مبتلا رہتاہوں کہ خدا جانے کہ وہ کل مجھے میسر آئے گی یا نہیں وہی خوراک مجھے روزانہ میسر آتی ہے۔ انسان بھی اسی غم میں مبتلا ہے کہ آج تو کھا لیا کل کیا کھاﺅں گا۔ رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ ضرور رزق عطا فرمائے گا۔
Bookmarks