Results 1 to 3 of 3

Thread: اسلام تلوار سے نہیں پھیل

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default اسلام تلوار سے نہیں پھیل

    اسلام تلوار سے نہیں پھیلا یوری آونیری پوپ بینڈیکٹ کی نبی eکی ذات پرہرزہ سرائی کے خلاف ایک یہودی دانشورکی شہادت ”یوری آونیری“ ایک اسرائیلی یہودی دانشوراورصحافی ہیں‘ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں انہوں نے ”اسلام تلوار سے پھیلایاگیاہے“ کے الزام کابڑے دلچسپ اندازمیں جواب دیاہے۔ ان کے اس مضمون کی خاص اہمیت کی وجہ ایک یہودی کے قلم سے رسول اللہe کے دفاع کے علاوہ یہ خاص بات ہے کہ عیسائی دنیا کوخصوصاً کیتھولک پوپ کوان کی ماضی کی تاریخ کاآئینہ دکھایا گیاہے۔ یہ مضمون مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہواتھا‘اب انٹرنیٹ پراس ایڈریس پرپڑھا جاسکتاہے۔ zope.gush-shalom.org/home/en/channels/avnery/1159094813 ایک زمانہ تھاکہ سلاطین روماعیسائیوں کو”جرم مسیحیت“ کی پاداش میں درندوں کے سامنے ڈلواکردلدوز مناظرسے تفریح طبع کاکام لیاکرتے تھے۔اس وقت سے اب تک چرچ اور حکومتوں کے درمیان تعلقات نشیب وفراز کے مختلف مرحلوں سے گزرے ہیں۔ 306ئ میں یعنی آج سے پوری17صدی پہلے قسطنطین اعظم نے اپنی حدودِ سلطنت میں عیسائیت کوفروغ دیا‘ اس وقت فلسطین روماکاایک حصہ ہوتاتھا۔ اس تاریخی موڑ کے کئی صدیوں بعدچرچ دوحصوں یعنی مغرب کے کیتھولک اور مشرقی علاقوں کے آرتھوڈاکس چرچ میں تقسیم ہوگیا‘ مغرب میں رومن چرچ کے بشپ نے جواپنے آپ کوپوپ کہلاتا تھا‘مطالبہ کیا کہ حکومت اس کی تابعداری قبول کرے۔ تاریخ گواہ ہے سلاطین اور پوپوں کے درمیان کشمکش نے یورپ کے لوگوں میں تفریق پیداکی ہے‘ ان کوبانٹ کر رکھا ہے۔یورپ کی تاریخ کی تشکیل میں اس کشمکش کامرکزی کردار رہا ہے۔یہ داستان تاریخی نشیب وفراز سے گزرتی رہی‘ کبھی بادشاہ پوپ کونکال باہرکرتااور کبھی پوپ بادشاہ کاحقہ پانی بند کردیتا یا اس کومعزول کردیتا۔ایک بادشاہ توبے چارہ مضحکہ خیزحدتک قابل ہمدردی رہا۔ہنری چہارم کوکلیب تک ننگے پیرپیدل جانا پڑا‘ جہاں وہ پوپ کے قلعے کے باہر‘برف باری کے درمیان ننگے پا¶ں عاجزی کرتارہا‘تین دن کے بعد پوپ نے اس کا ”حقہ پانی کھولنا“مناسب سمجھا۔ اس تاریخ میں ایسے دور بھی آتے رہے ہیں‘ جب بادشاہ اورچرچ کے درمیان صلح وتعاون بھی ہوا۔ہم اس وقت ایسے ہی ایک دورمیں جی رہے ہیں‘آج کے پوپ بینی ڈکٹ شانز دہم اورآج کے بادشاہ جارج بش دوم کے درمیان ایسی ہی ایک عجیب وغریب اور”شاندار“ سازبازہے۔ ایک طرف پوپ کاخطبہ ہے تودوسری طرف تہذیبوں کے تصادم کے ماحول میں بش کی ”اسلامی فاشزم“ کے خلاف ”صلیبی جنگ“ (Crusade)بھی ہے۔پوپ نے اپنے مشہورزمانہ لیکچر میں یہ دعویٰ کیا کہ”(ان کے نزدیک)اسلام اورعیسائیت میں ایک بڑافرق یہ ہے کہ عیسائیت عقل ومنطق(Reason) پرمبنی ہے اوراسلام اس کامنکرومخالف‘عیسائی خدا کے کاموں کی حکمت ومعقولیت جانتے ہیں اورمسلمان اس کے منکر ہیں کہ اللہ کے افعال میں ایسی کوئی معقولیت پائی جاتی ہے۔“ میں ایک لادین یہودی ہونے کی حیثیت سے اس غل غپاڑے میں پڑنا نہیں چاہتا۔یہ میری محدود صلاحیتوں کی بساط سے باہر ہے کہ پوپ کی اس منطق کو سمجھ سکوں۔ لیکن پوپ کے خطبہ کاایک حصہ ایساضرورتھاجس کو میں نظر اندازنہیں کرسکتا۔میں ایک یہودی ہوں اور ”تہذیبوں کے تصادم“کے کارزارکے پاس ہی رہتاہوں‘یہ حصہ مجھ سے متعلق بھی ہے۔ اسلام کی ”عقل بیزاری“ کوثابت کرنے کے لئے پوپ نے یہ بھی کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنے لوگوں کوحکم دیاتھا کہ وہ ان کے مذہب کوتلوار کی دھار سے پھیلائیں‘پوپ کے نزدیک یہ ”مخالف عقل ومنطق“(Unreasonable) ہے۔ تلوار سے جسم مطیع ہوجاتاہے‘ روح وعقل نہیں جھکتے۔ پوپ نے اپنے دعوے کومضبوط کرنے کے لئے سب کچھ چھوڑ کرایک بزنطینی بادشاہ کے قول سے استدلال کیاہے جس کا تعلق ان کے حریف ومخالف مشرقی چرچ سے تھا۔ اس کی حکمرانی کادورچودھویں صدی عیسوی کاآخری زمانہ تھا۔ شاہ مینویل دوم پیلیولوگس کی طرف منسوب ہے کہ اس نے ایک نامعلوم ایرانی مسلمان دانشور سے ایک گرماگرم بحث میں کہا: مجھے دکھا¶محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے کیانئی بات کہی ہے۔ تم کوان کے یہاں صرف بدی اور غیرانسانی چیزیں ہی ملیں گی۔ مثلاً ان کاحکم کہ ان کامذہب تلوار کے ذریعہ پھیلایاجائے۔ یہاں تین سوالات اٹھتے ہیں۔ -1 مینویل دوم نے یہ بات کیوں کہی؟ -2 کیااس نے واقعی ایساکہاتھا؟ -3 پوپ نے اس کواس وقت کیوں نقل کیا؟ جس وقت مینویل دوم نے اپنی یہ تحریر لکھی تھی‘ وہ اس وقت ایک دم توڑتی سلطنت کاسربراہ تھا۔ وہ 1391ءمیں تخت نشین ہوا۔عظیم سلطنت روماکے صرف چندصوبے ہی اس وقت اس کے پاس بچے تھے اور اس بچے کھچے پربھی ”عثمانی خطرہ“ منڈلا رہاتھا۔عثمانی ترکوں نے نہر دانوبے(دریائے ڈینیوب ) کے ساحلوں تک اپنے پرچم لہرادئیے تھے۔ بلغاریہ اور شمالی یونان ان کے زیر تسلط آچکے تھے۔ مشرقی رومن سلطنت کوبچانے کے لئے دوبارہ یورپ کی فوجیں آئیںمگر عثمانی سیلاب کے آگے کوئی بند رکتا نہیں تھا۔ مینویل کی موت کے بس چندبرس بعدکی بات ہے کہ قسطنطنیہ(موجودہ استنبول)ترک گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا‘یہ ٹاپیں ایک عظیم سلطنت کی زائدازہزار سالہ تاریخ کے اختتام کااعلان تھیں۔ مددحاصل کرنے کے لئے اپنے عہدحکومت میں مینویل نے یورپ کی راجدھانیوں کے بڑے چکر کاٹے‘ اس نے چرچ کوایک مرتبہ پھرمتحدکرنے کاوعدہ کیا۔کوئی شبہ نہیں کہ اس نے اپنی یہ مذہبی تحریراس لئے لکھی ہوگی کہ وہ عیسائی ممالک کو عثمانی ترکوں کے خلاف بھڑکا کراپنے دفاع کاسامان کرے‘ مقصد خودغرضانہ تھا‘مذہب سیاست کے لئے استعمال کیا جارہاتھا۔ اس پس منظر میں یہ اقتباس جس لئے اس وقت لکھاگیا تھا‘اسی مقصد کے تحت اس وقت نقل کیاگیاتھا۔ موجودہ دور کے بادشاہ(Emperor)بش کی مدد ہی اس کااصل مقصد ہے جو عیسائی دنیاکو”بدی کے محور“ (مسلمانوں)کے خلاف متحد کرنے میں جی جان سے لگاہواہے اور وہاں اس وقت (اگرچہ پرامن طورپرمگر ایک مرتبہ پھر)ترک یورپ کے دروازوں کے لئے دستک دے رہے ہیں۔ کیامینویل کی بات میں سچائی کاکوئی حصہ ہے؟خود پوپ کواندازہ تھاکہ وہ کچھ غلط کہہ رہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی سورة87(سورة بقرہ نزولی ترتیب سے 87اور توقیفی اعتبارسے 2نمبرپرہے)کی آیت 256میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ پھرقرآن کی ایسی صاف بات کیسے نظراندازکی جاسکتی ہے؟پوپ کولگاکہ اتنی صاف اورغیرمبہم آیت کے موجود ہوتے ہوئے ان کی بات مضحکہ خیز نہ بن جائے۔ اس لئے انہوں نے یہ تاویل کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کمزور تھے ‘بعدمیں انہوں نے تلوار کے زور سے تبلیغ کرنے اور لوگوں کو مسلمان بنانے کے احکام دئیے تھے۔ مگرذرارکیے!قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے‘ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنے مخالف قبائل‘یہودیوں ‘عیسائیوں اور عرب کی دیگر جماعتوں کے خلاف جنگ کاحکم دیاتھا۔ جب وہ اپنی ریاست قائم کررہے تھے مگر اس کامقصد بزورتلواراسلام پھیلانا نہیں تھا۔(یوری آونیری تھوڑی سی اصلاح کرلیں کہ نبیe نے اپنے ذاتی مخالفوں کوتوہمیشہ معاف کیا البتہ اللہ کے دشمنوں اور ظالموں کے خلاف جنگ کی اوراپنی ریاست قائم نہیں کی بلکہ اللہ کی حکومت قائم کی۔ادارہ) مسیح کہتے ہیں کہ ”بیج اپنے پھل سے پہچاناجاتاہے۔“ آئیے!دیکھیں اسلام کے بیج نے جومسلمان پیدا کیے‘ کیا انہوں نے تلوار کے زورسے اپنی مفتوح قوموں سے اسلام قبول کروایا؟ جب وہ طاقت کے اعتبار سے اس پوزیشن میں تھے کہ وہ تلوار کے زور سے اپنی مرضی مسلط کرسکیں توکیا اس وقت انہوں نے زبردستی اپنامذہب پھیلایا؟ یقینا اوربلاشبہ انہوں نے ایساکبھی نہیں کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ اس جرم سے پاک ہے۔ مسلمانوں نے صدیوں یونان پرحکومت کی۔ کیایونانی سب کے سب مسلمان ہوگئے؟ کیا کسی نے ان کومسلمان بنانے کی کوشش بھی کی؟بلکہ اس کے بالکل برخلاف عیسائی یونانیوں کوعثمانی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں سے نوازاگیا۔ بلغاریہ‘سربیا‘رومانیہ اور یورپ کی دوسری قومیں ترکوں کے زیراقتدار رہیں اوراپنی عیسائیت پربرقراررہیں‘کسی نے ان کواسلام پرمجبورکیا؟ اگربوسنیا اور البانیہ کے لوگوں نے اسلام قبول کیا توسب جانتے ہیں کہ یہ ان کااپناآزادانہ قومی انتخاب تھا۔ 1099ءمیں صلیبیوں نے یروشلم فتح کیا اوریہاں کے مسلمانوں اوریہودیوں کاقتل عام کیا۔اس سے پہلے فلسطین 400 سال مسلمانوں کے قبضے میں رہ چکاتھامگر اس کی اکثریت عیسائی باقی رہی۔ان چارصدیوں میں ان پراسلام مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ صلیبیوں کے وہاں سے نکالے جانے کے بعدوہاں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ یہودیوں پر اسلام تھوپا گیا ہو۔سب جانتے ہیں کہ مسلم اسپین میں یہودیوں کو جو عروج نصیب ہوا‘وہ تقریباً حالیہ دور تک ان کوکہیں نہیں حاصل ہوا ۔ یہودا اور ہاوی جیسے یہودی شاعروں نے عربی میں اپنے فن کے شگوفے کھلائے‘ اسلامی اسپین میں یہودی وزیربھی تھے‘ سائنٹسٹ بھی تھے اورشاعر بھی۔ مسلم طلیطلہ میں عیسائی‘یہودی اور مسلمان دانشوروں نے مل کرقدیم یونانی فلسفے اور سائنس کی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا۔وہ انسانی تہذیب کایقینا سنہرا دور تھا۔ کیا ایسا ہوسکتاتھا‘اگرمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے”اسلام کوتلوار سے پھیلانے“ اور غیر مسلم کوتلواروں کی نوک پررکھنے کی تعلیم دی ہوتی؟ دوسری طرف عیسائی دنیا کاکیاحال رہا ہے‘ وہ تو مزید اس قابل ہے کہ اس کوکہاجائے اورسنایاجائے۔ عیسائیوں نے جب اسپین کودوبارہ فتح کیا توانہوں نے مذہبی دہشت گردی کی حکومت قائم کی۔سنگ دلانہ معاملے نے یہودیوں اور مسلمانوں کے سامنے صرف تین راستے رکھے تھے۔یاعیسائی ہوجائیں یا سب ذبح کردئیے جائیں یاملک چھوڑدیں۔جن لاکھوں یہودیوں نے اپنامذہب چھوڑنے سے انکارکیا‘ وہ کہاں گئے؟ انہوں نے ہجرت کی اوران کومسلم ملکوں میں کھلے دل سے خوش آمدیدکہاگیا۔Shephardi(اسپینی) یہودی مغرب میں مراکش سے لے کرمشرق میں عراق تک اورشمال میں بلغاریہ سے لے کرجواس وقت عثمانی سلطنت کاحاصل تھا‘جنوب میں سوڈان تک کے مسلم علاقوں میں بس گئے۔کہیں ان پرمذہبی جبر نہیں ہوا‘ان کوکہیں نسل کشی ‘اجتماعی ہجرت‘ مذہبی جبراور قتل وخونریزی جیسی ان چیزوں کاسامنا نہیں کرنا پڑاجن کاسامنا ان کو تقریباً ہرعیسائی ملک میں کرناپڑا۔ ہولوکاسٹ تواس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ کیوں؟اس لئے کہ قرآن کھل کراہل کتاب کے ساتھ اچھے سلوک کی تعلیم دیتاہے۔ ہرایماندار یہودی جو اپنی قوم کی تاریخ سے واقف ہے‘وہ اپنے آپ کودل کے خلوص کے ساتھ اسلام کااحسان مند مانے گا‘جس اسلام نے یہودیوں کو پچاس نسلوں تک تحفظ دیا جبکہ عیسائی دنیا نے ان پرلگاتارظلم کیا اور ایذارسانی کے تحت رکھااوربار بارکوشش کی کہ ان کو ”تلوارکے ذریعہ“ اپنامذہب چھوڑنے پرمجبورکردیں۔ بہرحال اسلام کا”تلوار سے پھیلنا“ایک بدترین افسانہ ہے‘ جوان جھوٹی داستانوں میں سے ہے جویورپ نے مسلمانوں کے ساتھ جنگوں کے زمانے میں گھڑی تھیں۔ تیسراسوال یہ ہے کہ پوپ نے یہ نامعقول بات کیوں دہرائی؟ اس کاایک ہی سبب ہے۔ اورکچھ نہیں۔اس کوبش اوران کے ایوانجیلسٹ حامیوں کی اسلام کے خلاف ”صلیبی جنگ“ کے تناظرمیں دیکھاجاسکتاہے۔ بش کے آقاں کودنیاکے تیل کے ذخیروں پرقبضہ کرنے کی بے حیاکوششوں کاجواز فراہم کرنے کے لئے کچھ بہانوں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پوپ پوری کررہاہے۔ تاریخ میں ایساپہلی بارنہیں ہورہاہے کہ طمع ولالچ کے ننگے شیطانوں کومذہبی چوغے پہنائے جارہے ہیں اوران کی عریاں ہوسناکیوں پرتقدس کی ردائیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ ایساپہلی بارنہیں ہورہاہے کہ ڈاکوں کے شب خون کومقدس جنگ قراردیاجارہاہے۔پوپ کی تقریراسی قسم کی حرکت ہے۔

  2. #2
    Daudiqbal is offline Senior Member+
    Last Online
    7th May 2020 @ 11:41 AM
    Join Date
    20 Jun 2019
    Gender
    Male
    Posts
    212
    Threads
    1
    Credits
    1,347
    Thanked
    2

    Default

    Nic post

  3. #3
    Salmanssss's Avatar
    Salmanssss is offline Moderator
    Last Online
    14th August 2023 @ 07:42 PM
    Join Date
    10 May 2014
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    2,481
    Threads
    213
    Credits
    6,756
    Thanked
    540

    Default

    Quote imran sdk said: View Post
    اسلام تلوار سے نہیں پھیلا یوری آونیری پوپ بینڈیکٹ کی نبی eکی ذات پرہرزہ سرائی کے خلاف ایک یہودی دانشورکی شہادت ”یوری آونیری“ ایک اسرائیلی یہودی دانشوراورصحافی ہیں‘ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں انہوں نے ”اسلام تلوار سے پھیلایاگیاہے“ کے الزام کابڑے دلچسپ اندازمیں جواب دیاہے۔ ان کے اس مضمون کی خاص اہمیت کی وجہ ایک یہودی کے قلم سے رسول اللہe کے دفاع کے علاوہ یہ خاص بات ہے کہ عیسائی دنیا کوخصوصاً کیتھولک پوپ کوان کی ماضی کی تاریخ کاآئینہ دکھایا گیاہے۔ یہ مضمون مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہواتھا‘اب انٹرنیٹ پراس ایڈریس پرپڑھا جاسکتاہے۔ zope.gush-shalom.org/home/en/channels/avnery/1159094813 ایک زمانہ تھاکہ سلاطین روماعیسائیوں کو”جرم مسیحیت“ کی پاداش میں درندوں کے سامنے ڈلواکردلدوز مناظرسے تفریح طبع کاکام لیاکرتے تھے۔اس وقت سے اب تک چرچ اور حکومتوں کے درمیان تعلقات نشیب وفراز کے مختلف مرحلوں سے گزرے ہیں۔ 306ئ میں یعنی آج سے پوری17صدی پہلے قسطنطین اعظم نے اپنی حدودِ سلطنت میں عیسائیت کوفروغ دیا‘ اس وقت فلسطین روماکاایک حصہ ہوتاتھا۔ اس تاریخی موڑ کے کئی صدیوں بعدچرچ دوحصوں یعنی مغرب کے کیتھولک اور مشرقی علاقوں کے آرتھوڈاکس چرچ میں تقسیم ہوگیا‘ مغرب میں رومن چرچ کے بشپ نے جواپنے آپ کوپوپ کہلاتا تھا‘مطالبہ کیا کہ حکومت اس کی تابعداری قبول کرے۔ تاریخ گواہ ہے سلاطین اور پوپوں کے درمیان کشمکش نے یورپ کے لوگوں میں تفریق پیداکی ہے‘ ان کوبانٹ کر رکھا ہے۔یورپ کی تاریخ کی تشکیل میں اس کشمکش کامرکزی کردار رہا ہے۔یہ داستان تاریخی نشیب وفراز سے گزرتی رہی‘ کبھی بادشاہ پوپ کونکال باہرکرتااور کبھی پوپ بادشاہ کاحقہ پانی بند کردیتا یا اس کومعزول کردیتا۔ایک بادشاہ توبے چارہ مضحکہ خیزحدتک قابل ہمدردی رہا۔ہنری چہارم کوکلیب تک ننگے پیرپیدل جانا پڑا‘ جہاں وہ پوپ کے قلعے کے باہر‘برف باری کے درمیان ننگے پا¶ں عاجزی کرتارہا‘تین دن کے بعد پوپ نے اس کا ”حقہ پانی کھولنا“مناسب سمجھا۔ اس تاریخ میں ایسے دور بھی آتے رہے ہیں‘ جب بادشاہ اورچرچ کے درمیان صلح وتعاون بھی ہوا۔ہم اس وقت ایسے ہی ایک دورمیں جی رہے ہیں‘آج کے پوپ بینی ڈکٹ شانز دہم اورآج کے بادشاہ جارج بش دوم کے درمیان ایسی ہی ایک عجیب وغریب اور”شاندار“ سازبازہے۔ ایک طرف پوپ کاخطبہ ہے تودوسری طرف تہذیبوں کے تصادم کے ماحول میں بش کی ”اسلامی فاشزم“ کے خلاف ”صلیبی جنگ“ (Crusade)بھی ہے۔پوپ نے اپنے مشہورزمانہ لیکچر میں یہ دعویٰ کیا کہ”(ان کے نزدیک)اسلام اورعیسائیت میں ایک بڑافرق یہ ہے کہ عیسائیت عقل ومنطق(Reason) پرمبنی ہے اوراسلام اس کامنکرومخالف‘عیسائی خدا کے کاموں کی حکمت ومعقولیت جانتے ہیں اورمسلمان اس کے منکر ہیں کہ اللہ کے افعال میں ایسی کوئی معقولیت پائی جاتی ہے۔“ میں ایک لادین یہودی ہونے کی حیثیت سے اس غل غپاڑے میں پڑنا نہیں چاہتا۔یہ میری محدود صلاحیتوں کی بساط سے باہر ہے کہ پوپ کی اس منطق کو سمجھ سکوں۔ لیکن پوپ کے خطبہ کاایک حصہ ایساضرورتھاجس کو میں نظر اندازنہیں کرسکتا۔میں ایک یہودی ہوں اور ”تہذیبوں کے تصادم“کے کارزارکے پاس ہی رہتاہوں‘یہ حصہ مجھ سے متعلق بھی ہے۔ اسلام کی ”عقل بیزاری“ کوثابت کرنے کے لئے پوپ نے یہ بھی کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنے لوگوں کوحکم دیاتھا کہ وہ ان کے مذہب کوتلوار کی دھار سے پھیلائیں‘پوپ کے نزدیک یہ ”مخالف عقل ومنطق“(Unreasonable) ہے۔ تلوار سے جسم مطیع ہوجاتاہے‘ روح وعقل نہیں جھکتے۔ پوپ نے اپنے دعوے کومضبوط کرنے کے لئے سب کچھ چھوڑ کرایک بزنطینی بادشاہ کے قول سے استدلال کیاہے جس کا تعلق ان کے حریف ومخالف مشرقی چرچ سے تھا۔ اس کی حکمرانی کادورچودھویں صدی عیسوی کاآخری زمانہ تھا۔ شاہ مینویل دوم پیلیولوگس کی طرف منسوب ہے کہ اس نے ایک نامعلوم ایرانی مسلمان دانشور سے ایک گرماگرم بحث میں کہا: مجھے دکھا¶محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے کیانئی بات کہی ہے۔ تم کوان کے یہاں صرف بدی اور غیرانسانی چیزیں ہی ملیں گی۔ مثلاً ان کاحکم کہ ان کامذہب تلوار کے ذریعہ پھیلایاجائے۔ یہاں تین سوالات اٹھتے ہیں۔ -1 مینویل دوم نے یہ بات کیوں کہی؟ -2 کیااس نے واقعی ایساکہاتھا؟ -3 پوپ نے اس کواس وقت کیوں نقل کیا؟ جس وقت مینویل دوم نے اپنی یہ تحریر لکھی تھی‘ وہ اس وقت ایک دم توڑتی سلطنت کاسربراہ تھا۔ وہ 1391ءمیں تخت نشین ہوا۔عظیم سلطنت روماکے صرف چندصوبے ہی اس وقت اس کے پاس بچے تھے اور اس بچے کھچے پربھی ”عثمانی خطرہ“ منڈلا رہاتھا۔عثمانی ترکوں نے نہر دانوبے(دریائے ڈینیوب ) کے ساحلوں تک اپنے پرچم لہرادئیے تھے۔ بلغاریہ اور شمالی یونان ان کے زیر تسلط آچکے تھے۔ مشرقی رومن سلطنت کوبچانے کے لئے دوبارہ یورپ کی فوجیں آئیںمگر عثمانی سیلاب کے آگے کوئی بند رکتا نہیں تھا۔ مینویل کی موت کے بس چندبرس بعدکی بات ہے کہ قسطنطنیہ(موجودہ استنبول)ترک گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا‘یہ ٹاپیں ایک عظیم سلطنت کی زائدازہزار سالہ تاریخ کے اختتام کااعلان تھیں۔ مددحاصل کرنے کے لئے اپنے عہدحکومت میں مینویل نے یورپ کی راجدھانیوں کے بڑے چکر کاٹے‘ اس نے چرچ کوایک مرتبہ پھرمتحدکرنے کاوعدہ کیا۔کوئی شبہ نہیں کہ اس نے اپنی یہ مذہبی تحریراس لئے لکھی ہوگی کہ وہ عیسائی ممالک کو عثمانی ترکوں کے خلاف بھڑکا کراپنے دفاع کاسامان کرے‘ مقصد خودغرضانہ تھا‘مذہب سیاست کے لئے استعمال کیا جارہاتھا۔ اس پس منظر میں یہ اقتباس جس لئے اس وقت لکھاگیا تھا‘اسی مقصد کے تحت اس وقت نقل کیاگیاتھا۔ موجودہ دور کے بادشاہ(Emperor)بش کی مدد ہی اس کااصل مقصد ہے جو عیسائی دنیاکو”بدی کے محور“ (مسلمانوں)کے خلاف متحد کرنے میں جی جان سے لگاہواہے اور وہاں اس وقت (اگرچہ پرامن طورپرمگر ایک مرتبہ پھر)ترک یورپ کے دروازوں کے لئے دستک دے رہے ہیں۔ کیامینویل کی بات میں سچائی کاکوئی حصہ ہے؟خود پوپ کواندازہ تھاکہ وہ کچھ غلط کہہ رہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی سورة87(سورة بقرہ نزولی ترتیب سے 87اور توقیفی اعتبارسے 2نمبرپرہے)کی آیت 256میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ پھرقرآن کی ایسی صاف بات کیسے نظراندازکی جاسکتی ہے؟پوپ کولگاکہ اتنی صاف اورغیرمبہم آیت کے موجود ہوتے ہوئے ان کی بات مضحکہ خیز نہ بن جائے۔ اس لئے انہوں نے یہ تاویل کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کمزور تھے ‘بعدمیں انہوں نے تلوار کے زور سے تبلیغ کرنے اور لوگوں کو مسلمان بنانے کے احکام دئیے تھے۔ مگرذرارکیے!قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے‘ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنے مخالف قبائل‘یہودیوں ‘عیسائیوں اور عرب کی دیگر جماعتوں کے خلاف جنگ کاحکم دیاتھا۔ جب وہ اپنی ریاست قائم کررہے تھے مگر اس کامقصد بزورتلواراسلام پھیلانا نہیں تھا۔(یوری آونیری تھوڑی سی اصلاح کرلیں کہ نبیe نے اپنے ذاتی مخالفوں کوتوہمیشہ معاف کیا البتہ اللہ کے دشمنوں اور ظالموں کے خلاف جنگ کی اوراپنی ریاست قائم نہیں کی بلکہ اللہ کی حکومت قائم کی۔ادارہ) مسیح کہتے ہیں کہ ”بیج اپنے پھل سے پہچاناجاتاہے۔“ آئیے!دیکھیں اسلام کے بیج نے جومسلمان پیدا کیے‘ کیا انہوں نے تلوار کے زورسے اپنی مفتوح قوموں سے اسلام قبول کروایا؟ جب وہ طاقت کے اعتبار سے اس پوزیشن میں تھے کہ وہ تلوار کے زور سے اپنی مرضی مسلط کرسکیں توکیا اس وقت انہوں نے زبردستی اپنامذہب پھیلایا؟ یقینا اوربلاشبہ انہوں نے ایساکبھی نہیں کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ اس جرم سے پاک ہے۔ مسلمانوں نے صدیوں یونان پرحکومت کی۔ کیایونانی سب کے سب مسلمان ہوگئے؟ کیا کسی نے ان کومسلمان بنانے کی کوشش بھی کی؟بلکہ اس کے بالکل برخلاف عیسائی یونانیوں کوعثمانی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں سے نوازاگیا۔ بلغاریہ‘سربیا‘رومانیہ اور یورپ کی دوسری قومیں ترکوں کے زیراقتدار رہیں اوراپنی عیسائیت پربرقراررہیں‘کسی نے ان کواسلام پرمجبورکیا؟ اگربوسنیا اور البانیہ کے لوگوں نے اسلام قبول کیا توسب جانتے ہیں کہ یہ ان کااپناآزادانہ قومی انتخاب تھا۔ 1099ءمیں صلیبیوں نے یروشلم فتح کیا اوریہاں کے مسلمانوں اوریہودیوں کاقتل عام کیا۔اس سے پہلے فلسطین 400 سال مسلمانوں کے قبضے میں رہ چکاتھامگر اس کی اکثریت عیسائی باقی رہی۔ان چارصدیوں میں ان پراسلام مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ صلیبیوں کے وہاں سے نکالے جانے کے بعدوہاں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ یہودیوں پر اسلام تھوپا گیا ہو۔سب جانتے ہیں کہ مسلم اسپین میں یہودیوں کو جو عروج نصیب ہوا‘وہ تقریباً حالیہ دور تک ان کوکہیں نہیں حاصل ہوا ۔ یہودا اور ہاوی جیسے یہودی شاعروں نے عربی میں اپنے فن کے شگوفے کھلائے‘ اسلامی اسپین میں یہودی وزیربھی تھے‘ سائنٹسٹ بھی تھے اورشاعر بھی۔ مسلم طلیطلہ میں عیسائی‘یہودی اور مسلمان دانشوروں نے مل کرقدیم یونانی فلسفے اور سائنس کی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا۔وہ انسانی تہذیب کایقینا سنہرا دور تھا۔ کیا ایسا ہوسکتاتھا‘اگرمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے”اسلام کوتلوار سے پھیلانے“ اور غیر مسلم کوتلواروں کی نوک پررکھنے کی تعلیم دی ہوتی؟ دوسری طرف عیسائی دنیا کاکیاحال رہا ہے‘ وہ تو مزید اس قابل ہے کہ اس کوکہاجائے اورسنایاجائے۔ عیسائیوں نے جب اسپین کودوبارہ فتح کیا توانہوں نے مذہبی دہشت گردی کی حکومت قائم کی۔سنگ دلانہ معاملے نے یہودیوں اور مسلمانوں کے سامنے صرف تین راستے رکھے تھے۔یاعیسائی ہوجائیں یا سب ذبح کردئیے جائیں یاملک چھوڑدیں۔جن لاکھوں یہودیوں نے اپنامذہب چھوڑنے سے انکارکیا‘ وہ کہاں گئے؟ انہوں نے ہجرت کی اوران کومسلم ملکوں میں کھلے دل سے خوش آمدیدکہاگیا۔Shephardi(اسپینی) یہودی مغرب میں مراکش سے لے کرمشرق میں عراق تک اورشمال میں بلغاریہ سے لے کرجواس وقت عثمانی سلطنت کاحاصل تھا‘جنوب میں سوڈان تک کے مسلم علاقوں میں بس گئے۔کہیں ان پرمذہبی جبر نہیں ہوا‘ان کوکہیں نسل کشی ‘اجتماعی ہجرت‘ مذہبی جبراور قتل وخونریزی جیسی ان چیزوں کاسامنا نہیں کرنا پڑاجن کاسامنا ان کو تقریباً ہرعیسائی ملک میں کرناپڑا۔ ہولوکاسٹ تواس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ کیوں؟اس لئے کہ قرآن کھل کراہل کتاب کے ساتھ اچھے سلوک کی تعلیم دیتاہے۔ ہرایماندار یہودی جو اپنی قوم کی تاریخ سے واقف ہے‘وہ اپنے آپ کودل کے خلوص کے ساتھ اسلام کااحسان مند مانے گا‘جس اسلام نے یہودیوں کو پچاس نسلوں تک تحفظ دیا جبکہ عیسائی دنیا نے ان پرلگاتارظلم کیا اور ایذارسانی کے تحت رکھااوربار بارکوشش کی کہ ان کو ”تلوارکے ذریعہ“ اپنامذہب چھوڑنے پرمجبورکردیں۔ بہرحال اسلام کا”تلوار سے پھیلنا“ایک بدترین افسانہ ہے‘ جوان جھوٹی داستانوں میں سے ہے جویورپ نے مسلمانوں کے ساتھ جنگوں کے زمانے میں گھڑی تھیں۔ تیسراسوال یہ ہے کہ پوپ نے یہ نامعقول بات کیوں دہرائی؟ اس کاایک ہی سبب ہے۔ اورکچھ نہیں۔اس کوبش اوران کے ایوانجیلسٹ حامیوں کی اسلام کے خلاف ”صلیبی جنگ“ کے تناظرمیں دیکھاجاسکتاہے۔ بش کے آقاں کودنیاکے تیل کے ذخیروں پرقبضہ کرنے کی بے حیاکوششوں کاجواز فراہم کرنے کے لئے کچھ بہانوں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پوپ پوری کررہاہے۔ تاریخ میں ایساپہلی بارنہیں ہورہاہے کہ طمع ولالچ کے ننگے شیطانوں کومذہبی چوغے پہنائے جارہے ہیں اوران کی عریاں ہوسناکیوں پرتقدس کی ردائیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ ایساپہلی بارنہیں ہورہاہے کہ ڈاکوں کے شب خون کومقدس جنگ قراردیاجارہاہے۔پوپ کی تقریراسی قسم کی حرکت ہے۔

    بہت اچھی شیئرنگ کی تھی آپ نے
    بہت بہت شکریہ بھائی آپکا
    امید ہے آپ فورم پر واپس آکر اپنی اچھی اچھی شیئرنگز جاری رکھینگے
    One Vision One Standard

Similar Threads

  1. Replies: 4
    Last Post: 30th August 2015, 09:07 AM
  2. Replies: 1
    Last Post: 22nd April 2013, 08:10 AM
  3. Replies: 13
    Last Post: 5th August 2011, 01:40 PM
  4. اسلام کے لیئے پہلی تلواراٹھانا
    By Shehzad Iqbal in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 6
    Last Post: 25th February 2011, 06:42 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •