"ویلنٹائن ڈے، یوم حیا اور محبت "

المیہ یہ ہے کہ محبت ہوس کا دوسرا نام بن گئی. دوپٹے سے جھانکتی حسین اور شرمیلی مسکراہٹوں کی جگہ تیز سانسوں اور چھلکتی جبلتوں نے قبضہ جما لیا ہے. صدمہ تو یہ گزرا ہے کہ اب پیار کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں پچھلے وقتوں میں محبوب سے ہزاروں گھنٹوں کی جدائی کے بعد کہیں قربت کی نوبت آتی تھی. دکھ تو اس لمحے کی جدائی کا ہے کہ محبوب کی ایک جھلک دل کو تسلی و مسرت سے لبریز کر دیتی تھی اور آج گوشت کے لوتھڑے محبت کے نام پر جانوروں کی پیروی کو عشق کی شدت کہتے ہیں.
پہلے پاکیزہ جذبات کی تسکین اولیت رکھتی تھی اب جبلتوں کی بھوک عشق کے حجاب میں رقص کرتی پھرتی ہے. یہ حجاب بھی لڑکیوں کی داڑھی بن گئی ہے. جو مرضی کرو اوپر حجاب اور عبایا لٹکا لو شرافت کا ٹھپا لگاؤ اور چھ چھ سمیں رکھو. پہلے محبوب صرف محبوب کے دل میں بستا تھا آج دو باتیں ہوئی نہیں کہ مارکیٹ میں افئیر آجاتا ہے. پہلے ایک محبت پر لوگ پوری زندگی آہیں بھرتے تھے اب لڑکیوں کے اور لڑکوں کے نمبر ٹرافی کے طور سجائے جاتے ہیں. بات یہ نہیں کہ ویلنٹائن ڈے منائیں کہ نہ منائیں؟ ایشو تو یہ ہے کہ یہ مرن جوگی محبت ہے کدھر؟ یہ جو پارکوں میں سر جوڑے بیٹھی ہے؟ یہ جو میسجز پر جاری ہے؟ یہ جو تصاویر کا تبادلہ یے؟ یہ جو رات رات بھر چادر کے نیچے موبائل پر سرگوشیاں ہیں؟ یہ جو اندھیری رات میں ماں باپ کی عزت پر سے کودا جاتا ہے یہ ہے محبت؟..طلاق طلاق ہو رہی ہے. عدالتوں میں جاؤ. کیس پر کیس چڑھے ہوئے ہیں. یہ محبتیں ہیں جو دو چار چھ مہینے بعد تھک جاتی ہیں،اکتا جاتی ہیں؟ یا یہ لذتیں ہیں؟ یوم حیا مناتے ہو کبھی سوزوکی میں عورتوں کے ساتھ بیٹھے ہو؟ کبھی پر ہجوم بازار میں عورت کا حال دیکھا ہے؟ کبھی ہسپتالوں میں جنگل کا عالم دیکھا ہے؟ بھیڑ بکریاں جو ویگنوں میں بھری ہوتی ہیں وہ؟ شرم کیا یہ ہے؟ ویلنٹائن ڈے منائیں مگر مجھے محبت بھی لا کر دکھائیں. ویلنٹائن ڈے لے آئیں یا شرم و حیا کے ترانے گائیں جب اخلاقی المیہ یہ ہو کہ اپنی بہن بھائی کی شادیوں پر نیم برہنہ مجرے ہوتے ہوں، ماں بہنوں کے بغیر گالیاں مکمل نہ ہوتی ہوں، قرآن سے شادیاں ہوتی ہوں، بچیاں بیچی جاتی ہوں اور باپردہ بچے بھی نہ بچتے ہو، اس معاشرے میں ویلنٹائن ڈے یا شرم و حیا ڈے کے ڈھکوسلے کے بجائے پہلے انکو انسان تو بنا لو. جانوروں کو جتنے مرضی کمپیوٹر لیپ ٹاپ پکڑا دو اس نے چاٹنا ہی ہے. بھوکا معدے سے اور پیاسی جبلتیں لذت سے سوچتی ہیں