Results 1 to 2 of 2

Thread: موسیقی کے فروغ کے لئے حکومتی اقدامات

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default موسیقی کے فروغ کے لئے حکومتی اقدامات

     ”یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفرکرنے والی اے سی کوچ کااندرونی منظر تھا۔بس سواریوں سے کھچا کھچ بھری پڑی تھی۔ حتّٰی کہ فولڈنگ سیٹوں پر بھی اس امت مسلمہ کاقیمتی اثاثہ نسلِ نوکی صورت میں براجمان تھا۔ فولڈنگ کے علاوہ بھی عارضی طورپرکچھ پلاسٹک کے سٹول رکھ کررہی سہی کسرپوری کی گئی تھی۔ درحقیقت اس رش کی وجہ یہ تھی کہ اگلے دن عیدالفطرتھی اورلوگ واپس گھروں کولوٹ رہے تھے۔ ڈبل کرایہ دینے کے باوجود لوگ خوش تھے کہ انہیں ایک جم غفیرمیں سے یہ سعادت حاصل تھی کہ لوگوں کاہجوم بس کے باہرتھا اوروہ لوگ بس کے اندر۔کچھ ہی دیر میں ڈرائیور نے ہارن بجاتے ہوئے روانگی¿ بس کااعلان کیااور بس آہستہ آہستہ بس سٹینڈسے باہرنکل کراپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی۔ کچھ ہی دیربعد ایک ”گبھرو“ نوجوان اپنی سیٹ سے اُٹھا اوراس نے دورہی سے ڈرائیور کومخاطب کرتے ہوئے آواز دی ”استادجی روزے مک گئے نیں(استادجی روزے ختم ہوگئے ہیں)“ ڈرائیوربھی شایدبارش کے اسی پہلے قطرے کامنتظرتھا۔ اس نے فوراً کنڈیکٹر سے کچھ کہااور دوسرے ہی لمحے پوری بس موسیقی کی (منافقت بھری)آوازسے گونجنے لگی۔ اکادکا مسافروں کے علاوہ ہرشخص موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگا۔”نکونک“ بھری بس میں کوئی ایک بھی اس ملعون آواز کے خلاف بولنے کی جرا¿ت نہ کرسکا۔ درج بالاواقعہ بیان کرنے کامقصد فقط قارئین کے ذہنوں میں اس بات کواجاگر کرناہے کہ ہماری قوم کی ایک کثیرتعداد موسیقی کی دلدادہ ہے اوراکثرتوایسے دیوانے مستانے ہیںکہ ان کا کوئی بھی کام موسیقی کے بغیرمکمل ہی نہیں ہوپاتا۔”کیاپڑھالکھا اورکیاان پڑھ“ ہر کوئی اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے لئے بے تاب وبے قرار نظر آتاہے۔چاہے کوئی فائیوسٹار ہوٹل ہو یاچھابہ ہوٹل ‘ہرجگہ یہ شیطانی آواز سننے کوملتی ہے اورپھر”اہلِ ذوق“ نے موسیقی کو ”روح کی غذا“ قرار دیاہے۔ یقینایہ روح کی غذاہے بشرطیکہ روح شیطانی ہو۔ پھراس عادت رذیلہ کاشکارکوئی خاص طبقہ نہیں ہے بلکہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا ہرخاص وعام اس شیطانی راگ کاشکار ہے اورنوجوان نسل توکچھ زیادہ ہی موسیقی کی دلدادہ نظر آتی ہے۔ یقینانوجوان نسل ہی کسی قوم کاسب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے کہ جس کے کندھوں پراپنی قوم کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کابوجھ ہوتا ہے۔ یہی کسی قوم کامستقبل سنوارنے یابگاڑنے میں اہم کردار کی حامل نسل ہے۔ اسی وجہ سے جب کسی قوم یاملک کوتباہ وبرباد کرنا مقصودہوتودشمن سب سے زیادہ اسی نسل کی طرف توجہ دیتاہے اوراس کی اوّلین کوششوں میں یہ بات سب سے نمایاں ہوتی ہے کہ اس قوم کے نوجوانوں کوتباہ وبرباد کیاجائے۔ یہ تباہی صرف اسلحہ بارود استعمال کرکے عمل میں نہیں لائی جاتی بلکہ اس کے لئے اوربہت سے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ ان حربوں میں تعلیم ایک نہایت ہی کارگر حربہ ہے کہ جس قوم کوصفحہ ہستی سے مٹانایااپناغلام بنانامقصود ہواس کے تعلیمی نظام کو اپنے قابومیں کرلیاجائے یہی وجہ ہے کہ شروع سے لے کر آج تک کفار اسی سازش میںمگن ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو اس حدتک پراگندہ کردیاجائے کہ اس تعلیم کوحاصل کرنے کے بعداگرکوئی ہندویا عیسائی نہیں بھی بنتاتوکم ازکم وہ مسلمان بھی نہ رہے۔ تعلیمی نظام کے خلاف ہونے والی سازشوں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور اس مختصرسی تحریرمیں ان سب کااحاطہ کرناممکن نہیں ۔مگرمتعلقہ موضوع کے حوالہ سے جوبات عیاں ہوتی نظر آتی ہے وہ ہے طلباءکوآرٹ اینڈ کلچر کے نام پر موسیقی جیسے رذیل کاموں کی طرف مگن کرنا۔ اس کاآغاز 2006ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں میوزیکل کلاسز کے اجراءکی ”انا¶نسمنٹ“ سے کیاگیاگوکہ اس ناپاک منصوبے کواس وقت کی حکومت پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہی مگر پھر بھی کفارکے زیرِسایہ رہنے والی حکومتیں انہی کی ترجمانی کرتی نظر آئیں۔اسی تسلسل کو جاری رکھنے میں موجودہ حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔پاکستان کے بجٹ میں سے ایک خطیررقم آرٹ اینڈ کلچرل سوسائٹیز کے لئے آلاتِ موسیقی خریدنے کے لئے مختص کی گئی تاکہ اس امت کے مستقبل کوغیرمعنوی سرگرمیوں میں اُلجھا کرسائنس وٹیکنالوجی سے دورکیاجائے۔ وہ نوجوان کہ جوامت مسلمہ کی قیمتی متاع کی حیثیت رکھتے ہیں‘انہیں ان سوسائٹیز کے زیرانتظام ہونے والے سٹیج ڈراموں ‘میوزیکل کنسرٹ‘ گیٹ ٹوگیدر اوران جیسے دوسرے حیاءباختہ پروگراموں کی طرف مائل کیاجاتاہے۔ کافرنام نہاد”ریفریشمنٹ “کے نام پر طلباءوطالبات کے ایمانوں کے جنازے نکالنے کی کوششوں میں مگن ہے۔ ان سوسائٹیز کے زیرانتظام ہونے والے پروگراموں میں دل کھول کر موسیقی سے لطف اندوز ہواجاتاہے اوربغیر میوزک توشاید ایک پروگرام بھی اس طرح کی سوسائٹیز منعقدنہ کرسکیں۔ آئیے اب ذرا اس پوری دنیا کے لئے رحمت بناکربھیجے جانے والے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان اطہر سے اس نام نہاد ”روح کی غذا“ کے بارے میں چندارشادات کوملاحظہ کریں۔ ”حضرت نافع tسے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرt نے بانسری کی آواز سنی‘ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور اس راہ سے دورہٹ گئے۔(اسی حال میں نافع tسے پوچھا) نافع! آواز آرہی ہے؟میں نے عرض کیانہیں جناب! توانہوں نے کانوں سے انگلیاں ہٹالیں اور فرمایاکہ میںجناب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہمراہ تھا‘آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور(آواز سن کر) ایساہی کیاتھا جس طرح میں نے کیا۔“(سنن ابی دا¶د) محترم قارئین! ذرا غورکیجئے کہ موسیقی کی آواز کس قدر ناپسند ہے کہ کانوں میں انگلیاں دے کراس آواز سے بچاجارہاہے۔ حضرت نافعtکے عمل سے علماءنے یہ استدلال کیاہے کہ مجبوری کی حالت میں اگرآلاتِ موسیقی کی آواز کانوں میں پڑجائے تواس پر توجہ دئیے بغیر وہاں سے آگے نکل جاناچاہئے۔ زیادہ دیرتلک اس آواز کاکانوں میں پڑنابھی خطرناک ہے۔ موسیقی چونکہ منافقت پیدا کرتی ہے۔اس لئے یہ انسان کو حقیقت کی دنیا سے لے جاکر خوابوں کی دنیامیں بسادیتی ہے۔آپ نے یقینا دیکھاہوگا کہ موسیقی کی آواز کا مسلسل سننا انسان کوکچھ وقت کے لئے حقیقت سے دُور کردیتا ہے اور موسیقی کے دلدادہ شایداسی لئے اس کی حمایت میں کمربستہ نظر آتے ہیں کہ ان کے بقول میوزک انہیں غموں کوبھلانے میںمدد دیتاہے۔ اول تویہ بات پرلے درجے کی بے وقوفی ہے اوراگر بالفرض اسے سچ سمجھ بھی لیاجائے توبندہ جب دوبارہ حقیقت کی دنیا میں پلٹتا ہے توحقیقت کچھ اورزیادہ تلخ لگنے لگتی ہے اورانسان کوزیادہ ذہنی کوفت کاسامناکرناپڑتاہے۔پھر موسیقی انسان میں بغاوت کے جراثیم پیدا کرنے کابھی سبب ہے۔انسان جب گانے سنتے ہوئے طرح طرح کے مناظر دیکھتاہے تووہ اپنے آپ کو ”ہیرو“کی جگہ رکھ کر خواب وخرگوش میں مگن ہوجاتاہے مگر جب خواب کاتسلسل ٹوٹتاہے تواسے اپنی حیثیت پہلے سے بھی زیادہ حقیرمعلوم ہوتی ہے اور وہ راتوں رات امیرہونے کے خواب دیکھناشروع کردیتاہے۔جس کا نتیجہ بہرحال حالات سے بغاوت کی صورت میں نکلتاہے اور اس بات کومغربی ممالک ہم سے زیادہ بہتراندازمیں سمجھ چکے ہیں۔ آج سے دواڑھائی سال پہلے ایک سنڈے میگزین میں کسی مغربی مفکرکی ریسرچ شائع ہوئی۔ موسیقی کے اوپرکی جانے والی اس ریسرچ میں بڑے واضح اندازمیں کہاگیاکہ”موسیقی انسان کوکچھ وقت کے لئے حالات سے بے گانہ کردیتی ہے جو وقتی طورپرتوسکون کاباعث ہے مگرجب یہ سلسلہ ختم ہوتاہے توانسان اپنے آپ کوبغاوت پرآمادہ پاتاہے یاکم ازکم اسے اپنے مسائل پہلے سے دوگنا نظر آتے ہیں جوذہنی اذیت کاباعث بنتے ہیں۔ اسلام چونکہ امن وسلامتی کادین ہے اور مستقل ذہنی راحت اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے اندر نہیں ملتی شایداسی لئے اللہ نے جہاں اوربہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے آخری نبی جناب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کومبعوث کیاوہیں انہیں آلاتِ موسیقی توڑنے کابھی حکم دیا۔ ”حضرت ابوامامہ t سے روایت ہے کہ وہ جناب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت اورہدایت بناکربھیجاہے اور مجھے حکم دیاہے کہ میں بتوں اورسازباجوں کو(صفحہ¿ ہستی)سے مٹا دوں۔“(مسنداحمد) اب ایک طرف توہم اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )کے ان فرامین کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اس ملک کے نااہل حکمرانوں پرنظر پڑتی ہے کہ جوباقاعدہ بجٹ پاس کرکرکے آلات موسیقی خریدنے کے درپے ہیں۔ اسی تناظرمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشادگرامی ہے کہ: ”(اللہ تعالیٰ نے)فرمایا‘جاتیرا اورتیری پیروی کرنے والوں کا پورا پورا بدلہ دوزخ ہے اورجس پرتیرا بس چلے اسے اپنی آواز سے برانگیختہ کرلے اوران پر اپنے سواروں اورپیادوں سے چڑھائی کردے اوران کے مال اوراولاد میں سے حصہ دار بن جااوران سے وعدہ کرتا رہ اورنہیں شیطان کے وعدے مگردھوکہ۔“(بنی اسرائیل۔64,63) اس آیت کی تفسیرمیں امام ضحاکؒ (ابن جریرؒ)فرماتے ہیں:”شیطان کی آواز سے مراد سازباجوں کی آواز ہے۔“(سیرت ابن ہشام:40/1) ہمارے حکمران طبقے کواللہ سے ڈرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات سے توبہ کرنی چاہئے ‘وگرنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ”حکومت“ تواللہ کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمہ داری ہے جس کاحساب ان حکمرانوں کوضروربہ ضرور دیناہے۔ انہیں طلباءمیں اسلامی کلچرکے فروغ کی کاوشیں کرنی چاہئے نہ کہ بے حیائی کی۔ ”جولوگ اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کودنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہوگا اوراللہ خوب جانتاہے اورتم نہیں جانتے۔“ اسی طرح میوزک کے دلدادہ نوجوانوں کوبھی اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )کے اس فرمان کومدِ نظررکھناچاہئے کیونکہ ہربندہ اپنے اعمال کا کل قیامت والے دن جواب دہ ہے۔ ”حضرت ابوعامرtیاحضرت ابومالکtسے مروی ہے کہ انہوں نے جناب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے سنا‘ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جوبدکاری‘ریشم‘ شراب اور سازباجوں کوحلال سمجھیں گے۔(اسی طرح کے)کچھ لوگ ایک پہاڑ کے دامن میں فروکش ہوں گے۔ شام کے وقت ان کے چرواہے ‘چوپایوں کولے کروہیں پرلوٹیں گے۔ ان کے پاس ضرورت منداپنی ضرورت سے آئے گا تووہ کہیں گے کل آنا لیکن بوقت شب ان پرعذاب الہٰی نازل ہوگاکہ اللہ ان پرپہاڑ گرا دے گا (جوانہیں کچل ڈالے گا)اورکچھ لوگوں کووہ قیامت کے دن تک ان کی صورتیں مسخ کرکے بندراور خنزیربناڈالے گا۔“(صحیح بخاری) فرمان نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے سامنے ہے۔فیصلہ بھی ہمیں ہی کرنا ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی تیارکردہ جنت قابل قبول ہے یا بندراورخنزیربننا۔یقینا عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں شیطان کے باجوں سے بچتے ہوئے جنت الفردوس کاٹکٹ عطافرمائے۔آمین

  2. #2
    MOHAMMEDIMRAN's Avatar
    MOHAMMEDIMRAN is offline Senior Member+
    Last Online
    17th September 2016 @ 11:52 AM
    Join Date
    19 Dec 2008
    Posts
    2,722
    Threads
    161
    Credits
    1,056
    Thanked
    313

    Default

    Bohat umdah...
    ALLAH HAM SAB KO HARAM CHEEZON SE MEHFOOZ RAKHAY
    AAMEEN...

    JazakALLAH...

Similar Threads

  1. Replies: 5
    Last Post: 8th October 2016, 06:29 PM
  2. Replies: 34
    Last Post: 18th October 2011, 02:21 AM
  3. Replies: 8
    Last Post: 11th March 2010, 06:39 PM
  4. Replies: 9
    Last Post: 27th July 2009, 02:03 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •