آج کل ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہمارے ملک میں ایک بھیڑ چال عام ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو دوسرا کرتا ہے .. ہم بچوں کی تربیت نہیں کرتے بلکہ ایجوکیشن دلواتے ہیں جو انھیں صرف ڈگری ہولڈر بنا دیتا ہے لیکن مسلمان ، اچھا انسان اور پاکستانی نہیں بناتا ..اسلام بچوں کو سات سال سینے سے لگا کر تربیت دینے کا کہتا ہے ..یہاں تک کہ سب سے ضروری چیز ، نماز کا حکم بھی سات سال کی عمر کے بعد آیا ہے ..لیکن ہمارے ملک میں مونٹیسوری سکولوں نے ماؤں کے لیے بچوں سے جان چھڑانے کا ایسا طریقہ دیا ہے کہ ہم ٢-٣ سال کا بچہ روزانہ انکے حوالے کر آتے ہیں ..اور خود آسان زندگی گزارتے ہے ...یہی بچے بڑے ہو کر والدین کو اولڈ ہوم نہیں چھوڑیں گے تو اور کیا کریں گے ...اسکے علاوہ ہمارے ملک میں کوئی یکساں تعلیمی نصاب نہیں ..اسکول مالکان نے کاروبار بنایا ہوا ہے ..اور ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی فنکشن یا ایونٹ رکھا ہوتا ہے جس سے والدین کو ضرورت سے زائدہ اخراجات اور مشکلات پیش آتی ہیں ...پھر بھی بچوں کی تربیت نہیں ہو پاتی ...ہمارے گھروں میں ماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو انگلش کے لفظ پہلے سکھایں ...اردو قومی زبان ..یا مادری زبان آے نہ آے وہ بعد کی بات ہے ...کچھ کم تعلیم یافتہ خواتین اسی کوشش میں اپنے بچوں کو گلابی انگلش بھی سکھاتی ہیں جسکا صرف نقصان ہی ہوتا ہے فائدہ کچھ نہیں ہوتا....میری تمام لوگوں سے گزارش ہے ..کہ خدا راہ اپنے بچوں کو پہلے اسلام کے بنیادی باتیں سکھایں ..کلمات یاد کروایں ..اور معاشرتی آداب سکھایں ...اور پھر سکولوں کے حوالے کریں ...بچوں کی تربیت کرنا ، انھیں اچھا انسان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے .کچھ والدین بچوں کو غلط کام سے نہیں روکتے کہ بچوں کا اعتماد تباہ ہوتا ہے یہ بھی غلط ہے .. ..بچوں کو بدتمیز اور بد تہذیب بنے سے بہتر ہے کہ آپ انکو اچھے طریقے سے سمجھا کر روکیں ..انگلش بولنا اسکول والے بھی سکھا دیں گے ..کم از کم انکو اپنی مادری زبان اور قومی زبان تو خود سکھا دیں
Bookmarks