اس نے روتے ہوئے کہا، "میری تو کمر ٹوٹ گئی جناب! گھر ویران ہوگیا میرا۔ آمدنی کا راستہ بند نظر آرہاہے کئی مہینوں تک۔۔ کیا کروں کہاں جائوں؟؟"
"ارے اربوں کمائے ہیں، سالوں کھا سکتے ہو، شرم کروبھرے بینک اکائونٹ کے ساتھ چند مہینوں کو رو رہے ہو؟" سننے والے نے بے پروائی سے کہا
"آمدنی ہوتی رہے تو خرچ بے دھڑک ہوتا ہے سرکار، رک جائے تو کھربوں خرچ کرتے ہوئے بھی ہول آتا ہے" بے بسی سے کہا گیا
"اچھا فکر نا کر، تیری آمدنی آج سے ہی بحال ہو جائے گی" شیطانی مسکراہٹ سے کہا گیا اور طریقہ بھی بتا دیا گیا
ــــــــــــــــــ
پولیس کی تمام رکاوٹیں توڑ کے "اہلِ ایمان و عقیدہ" مزار پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ "مجاور" کی جوشیلی تقریرِ دل پزیر نے نے انکا لہو گرمادیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ "کافر، تکفیری" ہمیں ہمارے ایمان سے روکنا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دینگے۔ ہم مزار بند نہیں ہونے دینگے۔ مزار کھلے گا دھمال ڈلے گا اور کافر، تکفیری جل جل کے مرے گا" اور اب وہ اسی "گرمی" کو نکالنے کے لئے دیوانہ وار "دھمال" ڈال رہے تھے۔
اسی جگہ جہاں دو دن پہلے بے گناہ معصوموں کا خون تھا
کسی "دھمالی"کا پائوں وہاں پڑ رہا تھا جہاں دو دن پہلے کسی کا کٹا ہوا لہو لہو "ہاتھ" تھا تو کوئی اس زمین پہ اچھل رہا تھا جہاں کوئی "سر بنا دھڑ" گرا ہوا تھا
ــــــــــــــــــ
ایک دھمال باہر ڈل رہا تھا جہاں "قران و سنت" کے واضح احکام کو ڈھول کی تھاپ پہ دبانے کی کوشش کی جارہی تھی تو دوسرا دھمال "مجاور" اپنے کمرے میں ڈال رہا تھا کہ اسکی آمدنی بحال ہوگئی تھی
ــــــــــــــــــ
مسجد سے موذن کی آواز آرہی تھی، "آئو صلواۃ کی طرف، آئو بھلائی کی طرف"
جنکو اپنی بھلائی مقصود تھی وہ با وضو مسجد کی طرف بڑھے اور جنکے دماغ پہ شیطان نے صورتِ مجاور قبضہ کیا ہوا تھا وہ نماز، روزہ، زکواۃ سب بھلائے نعشوں پہ دھمال ڈالتے رہے ڈالتے رہے ڈالتے رہے
ـــــــــــــــــــــــ
معلمہ ریاضی، لبنیٰ سعدیہ عیق