Results 1 to 5 of 5

Thread: خود کشی کرنا

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default خود کشی کرنا





    حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا، اسے زخم لاحق ہوا تو گھبرا گیا۔ اس نے (تنگ آکر) خود کشی کرلی۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا، میرے بندے نے اپنی جان کے خاتمے کے لیے مجھ سے آگے نکلنے کی کوشش کی۔ لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کردی”۔
    (بخاری)

    فائدہ:۔
    یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر طرح کی نعمت انسان کی خدمت اور فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر ان سب سے فائدہ اٹھانا انسان کا حق ہے۔ لیکن کسی بھی چیز کے غلط استعمال کی اسے اجازت نہیں۔ کیونکہ انسان خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف امین ہے۔ حتٰی کہ وہ اپنی اس جان کا بھی مالک نہیں ہے۔ اس لیے غلط جگہ یا غلط طریقے سے بھی اپنی زندگی، وقت اور صلاحیت خرچ نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنی یہ زندگی خود اپنے ہاتھوں ختم کرنا چاہے تو جان کے خالق و مالک نے اسے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ: ”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر نہایت مہربان ہے”۔ (النساء۔29)۔

    انسان سے سرزد ہونے والے جرائم میں سب سے سنگین اور گھناؤنا جرم خود کشی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ حتٰی کہ جانور بھی بہ زبان حال اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اپنی جان کی حفاظت اور اس کی بقا کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کہ فطرت کا بنیادی درس ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے اس نے اس کے اردگرد وعید کے مضبوط حصار قائم کردیے اور اس برائی کو جنم دینے والے عقائد باطلہ کی بیخ کنی کی۔ انسان کو ہر حال میں صبر و استقلال کا درس دیا اور اس حقیقت کو ذہن نشین کرایا کہ اس دنیا میں کسی شے کو ثبات نہیں۔ ہر چیز تغیر کی زد میں ہے۔ یہاں کی صحت وتندرستی، عیش و آرام، دولت و ثروت، جاہ و جلال اور یہاں کے مصائب و تکالیف، غربت و افلاس سب بدلتے رہتے ہیں اور ہر پریشانی کے ساتھ خوش حالی آتی ہے اور بالآخر اس زندگی کے بعد ایک ہمیشہ کی زندگی ہے وہاں ہر شے کو دوام و ثبات حاصل ہے۔ انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور کبھی اس کا سفینہ حیات مصیبتوں و تکلیفوں کے بھنور میں پھنس جاتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ ان مصائب کو طوفان سے اب چھٹکارا ممکن نہیں اور ہمارا ازلی دشمن شیطان اس کو مایوسی کے دام میں گرفتار کرکے اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ خودکشی کے ساحل کے علاوہ اور کوئی ساحل نہیں اور یہی دوا ہر مرض کا علاج ہے جبکہ یہ نادان نہیں جانتا کہ نظر آنے والا کنارہ حقیقت میں مصائب و آلام کا انتہائی گہرا سمندر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    اس لیے اللہ تعالٰی نے ایک جگہ اس طرح فرمایا: ”اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”۔ (البقرہ۔195)۔ خود کشی کرنے والے کے ساتھ عام طور پر رحم دلی اور ترس کا معاملہ کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات مخالف اور دشمن بھی اس موقع پر ترس کھاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کس قدر شفیق اور سراپا رحمت تھی کہ ہمیشہ اپنے دشمن کے لیے تھی دعائے ہدایت کی اور جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ مگر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔ (بحوالہ سنن النسائی)۔

    ایک اور حدیث میں ہے کہ: ”جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی۔ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ وہ ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے دھار والی چیز کو مارکر خودکشی کرلی تو وہ دھار دار آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا۔ (بحوالہ بخاری)۔

    اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس حرام موت سے محفوظ رکھ اور صراط مستقیم کی توفیق عنایت فرماتا رہے۔ آمین یا رب

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    بسم الله الرحمن الرحيم

    وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
    16:116
    وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
    2:42
    إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
    9:111

    امّا بعد:۔

    سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے

    نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ امت کے کچھ لوگ آج ان مجاہدین کی طرف [فلاں بن فلاں کی پیروی کا لفظ استعمال کر کے] انگلیاں اٹھاتے ہیں جنھوں نے عراق، افغانستان، شیشان اور دیگر اسلامی خطوں میں ان کی طرف کے محاظ سنبھال رکھے ہیں۔ کہ جنھوں نے طاغوت کو تیروں کا رخ اپنے سینوں کی طرف لے رکھا ہے۔

    یہ بات بجا ہے کہ خودکشی کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اللہ اس سے ناراض ہوتا ھے۔ خودکشی کرنے والا خود کو گھبراہٹ، بے صبری اور اللہ کی رحمت سے مایوس ھو کر خود کو ہلاک کرتا ہے۔ اس کا یا تو ایمان کمزور ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں۔ خودکشی کرنے والا خود کو بغیر کسی شرعی مقصد کے ہلاک کرتا ہے، مثلا : غصے یا بیماری سے تنگ آ کر یا غیرت و عزت کی وجہ سے یا دیگر کسی ایسے مقصد جو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔

    - حظرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہتے ہیں ہم خیبر میں تھے ایک آدمی کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ جہنمیوں میں سے ہے حالانکہ وہ آدمی مسلمان ہونے کا دعویدار تھا۔ جب جنگ کا وقت آیا تو وہ شخص بہت دلیری سے لڑتا رہا جب اسے شدید زخم آے تو کچھ لوگ شک کرنے کے قریب تھے۔ آدمی کو جب زخموں سے تکلیف ہوئی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور خود کو اس سے ہلاک کر لیا۔ مسلمانوں پر یہ بات شدید گزری انہوں نے کہا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی بات سچ ثابت ہوئی اس شخص نے خودکشی کر لی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن جائے گا البتہ فاجر آدمی کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کرتا ھے۔ (بخاری ۔ مسلم ۔ احمد ۔ ابن حبان)

    ایک اور روایت میں ھے کہ جب رات ہوئی تو وہ اپنے زخموں کی تکلیف نہ برداشت کر سکا اور اس نے خودکشی کر لی (بخاری ۔ مسلم ۔ احمد ۔ ابن حبان)

    صحیح بخاری میں جندب بن عبداللہ (رض) والی روایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ھے

    اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ خودکشی کی حرمت پر علماء کا اتفاق ہے۔


    Quote:
    Originally Posted by conan
    ارشاد باری تعالٰی ہے کہ: ”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر نہایت مہربان ہے”۔ (النساء۔29)۔

    وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30) (النساء 29-30)۔
    اپنی جانوں کو قتل مت کرو اللہ تم پر مہربان ھے اور جس نے یہ کیا ظلم و زیادتی کی بنیاد پر تو عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور یہ کام اللہ پر آسان ھے

    امام قرطبی (رح) تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں :
    وأجمع أهل التأويل على أن المراد بهذه الآية النهى أن يقتل بعض الناس بعضا.
    ثم لفظها يتناول أن يقتل الرجل نفسه بقصد منه للقتل في الحرص على الدنيا وطلب المال بأن يحمل نفسه على الغرر المؤدي إلى التلف.
    ويحتمل أن يقال: (ولا تقتلوا أنفسكم) في حال ضجر أو غضب، فهذا كله يتناول النهي.
    قرطبی 5/ 156-157

    مفسرین کا اجماع ھے کہ اس آیت میں لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ھے اور اس آیت کے الفاظ اس بات کو بھی شامل ہیں کہ ان سے خودکشی کی حرمت ثابت ہو۔ اور اس مقصد کے لیے قتل کہ دنیا کا لالچ ہو یا مال کی طلب میں خود کو ایسے کام پر آمادہ کرے جس میں جان کا خطرہ ہو اور یہ اس بات پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ اپنی جانوں کو مت قتل کرو تکلیف یا غصے کی وجہ سے اس آیت سے ان تمام صورتوں کی ممانعت ثابت ہوتی ہے

    نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
    اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتا ہے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر اور خیر کی ہو اور اگر میرے لیے موت بہتر ہے تو مجھے موت دیدے
    صحیح بخاری - صحیح مسلم

    ابن حجر (رح) فرماتے ہیں
    وقوله " من ضر أصابه " حمله جماعة من السلف على الضر الدنيوي ، فإن وجد الأخروي بأن خشي فتنة في دينه لم يدخل في النهي ، ويمكن أن يؤخذ ذلك من رواية ابن حبان " لا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به في الدنيا "

    کہ حدیث میں لفظ ہے کہ پہچنے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے اس کو بعض علماء سلف نے دنیاوی تکلیف پر محمول کیا ھے اگر اخروی تکلیف محسوس کرتا ہو یعنی اس کو اپنے دین کے فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر یہ ممانعت میں داخل نہیں ہے ہو سکتا ہے یہ بات اب حبان کی روایت سے لی گئی ہو جس میں لفظ ہے " لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدكُمْ الْمَوْت لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ فِي الدُّنْيَا " (فتح الباری : 10 / 128) کہ دنیا کے بارے میں جو تکلیف پہنچی ہو اس کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے

    یہ نصوص اور جو بھی دیگر ان طرح کی نصوص ہیں جن میں قتل نفس کی حرمت یا تکلیف و عدم صبروگھبراہٹ کی وجہ سے موت کی تمنا ہے یہ دراصل ایمان کی نفی یا نقص کی علامت ہے یہ دین کی مصلحت یا کلمۃاللہ کی بلندی کے لیے نہیں ہے جبکہ شہادت کی نیت سے فدائی [یا شہیدی] حملے صرف ایمانی قوت کی بنا پر ہوتے ہیں اور اس یقین کی بنا پر کے اللہ کہ ہاں اس کے لیے اجر ہے اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت اور دین کے مفاد و مصلحت کے لیے قربانی کے جزبے کے تحت ہیں۔ خودکشی کی حرمت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس میں انسان قتل ہوتا ہے بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ اس میں تقدیر پر ایمان نہ ہونے کی وجہ موجود ہے یا تقدیر سے ناراض ہونے یا دنیا کی طلب کے لیے ہے۔ جبکہ ایک لڑکے کا اصحاب الاخدود کے واقعہ کے ضمن میں ذکر ہےکہ لڑکے نے بادشاہ کو اپنے قتل کی ترکیب بتائی، شریعت نے اس کی تعریف کی ہے (بحوالہ صحیح مسلم) اس لیے کہ یہ اس نے اللہ کی طرف رغبت اور اس کے دین کی مدد کے لیے کیا تھا جبکہ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے دین کی مدد کرتا ہے۔ جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو موت کی تمنا کرنے سے منع کیا ہے تو وہ دنیاوی پریشانی کی وجہ سے تمنا کرنے سے منع کیا ہے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو فی سبیل اللہ شہید ہونے کی تین مرتبہ تمنا کی ہے (بحوالہ صحیح بخاری)۔
    جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
    وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ (صحیح بخاری : 36)۔
    میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل ہو جاؤں

    ابن حجر (رح) فرماتے ہیں :
    اس کے لیے شہادت کی تمنا کرنا جائز ہے جو اعلاء کلمۃاللہ کے لیے کرنا چاہتا ہو یہاں تک کہ وہ اس راہ میں اپنی جان دے دیتا ہے (فتح الباری : 10 / 6)۔

    امام بخاری (رح) نے اس حدیث کو کتاب الجہاد میں ذکر کیا ہے اور اس پر باب باندھا ہے "باب تمني الشهادة" اسی طرح امام بہقی (رح) نے بھی یہی باب باندھا ہے۔ لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خود فی سبیل اللہ قتل ہونے کی تمنا کرنا اور تکلیف کی بنا پر موت کی تمنا سے منع کرنا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں قسم کے قتل میں فرق ہے

    وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرہ : 207)۔
    اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنا آپ فروخت کرتے ہیں اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے اور اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے

    اکثر علماء کی رائے ہے کہ یہ آیت ہر اس آدمی کے بارے میں ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہے یا اللہ کی راہ میں شہید ہوتا ہے یا کسی منکر کے خاتمے کی کوشش میں قتل ہوتا ہے البتہ اس کو خودکشی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (طبری : 2 / 320 ، قرطبی : 3 / 20 ، ابن کثیر : 1 / 248)۔

    اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
    قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ (4) النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ (5) إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ (6) وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ (7) وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (8) (البروج 4 - 8 )۔
    خندقوں والے مارے گئے جو آگ تھی ایندھن والی۔ یہ لوگ اس پر بیٹھے ہوتے تھے۔ اور یہ لوگ مومنوں کے ساتھ جو (برتاؤ و سلوک) کر رہے تھے انھوں نے ان (مومنین) سے صرف اس بات کا بدلہ لیا کہ وہ غالب و وقابل تعریف اللہ پر ایمان لائے تھے

    اخدود زمین میں کھودے گئے لمبے گڑھے کو کہا جاتا ہے۔ مفسرین نے اس بارے میں حضرت صہیب (رض) سے منقول حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ذکر کی ہے۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح ایک بچے نے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان دے دی اس امید پر کہ اس کی قوم کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ حالانکہ اللہ نے اس کو بار بار محفوظ رکھا۔ اس کے بعد اس نے بادشاہ کو وہ طریقہ بتلا دیا جس سے اس کی موت واقع ہو سکتی تھی اور اس کے قتل سے مقصود قوم کی ہدایت کا سبب بننا تھا۔ اس طرح وہ یقینی طور پر اپنے قتل میں شریک تھا اگرچہ اس نے اپنے ہاتھ سے خود کو ہلاک نہیں کیا تھا لیکن اس کی رائے ہی اس کے قتل کا واحد ذریعہ تھی۔ (بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الزھد و الرقاق)۔ جمہور علماء کے نزدیک قتل کا سبب بننے والے سے بھی قاتل کی طرح قصاص لیا جائے گا۔ مزید یہ کہ اسی واقع میں ایک عورت کا بھی ذکر ہے جو دین کی سربلندی کےلیے آگ میں کود گئی، جیسا کہ اس کی گود میں موجود بچے نے ماں سے کلام بھی کیا کہ امی صبر کریں آپ حق پر ہیں۔ اور اسی واقع میں ذکر کردا راہب نے بھی حق پر صبر کیا یہاں تک کہ اسے آری سے چیر دیا گیا۔ جو لوگ ایمان لائے تھے انہوں نے بھی حق پر صبر کیا یہاں تک کے آگ میں ڈال دیئے گئے مگر اپنے دین سے نہیں پھرے۔ (بحوالہ تفسیر قرطبی)۔

  3. #3
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default


    اور جہاں تک تعلق ہے اس آیت کا تو اس کی تفسیر بھی پیش خدمت ہے اور جنھوں نے کی اور جس موقع پر کی تو وہ بھی ملاحظہ کر لیجئے۔
    عن أسلم أبي عمران قال
    غزونا من المدينة نريد القسطنطينية وعلى الجماعة عبد الرحمن بن خالد بن الوليد والروم ملصقو ظهورهم بحائط المدينة فحمل رجل على العدو فقال الناس مه مه لا إله إلا الله يلقي بيديه إلى التهلكة فقال أبو أيوب إنما نزلت هذه الآية فينا معشر الأنصار لما نصر الله نبيه وأظهر الإسلام قلنا هلم نقيم في أموالنا ونصلحها فأنزل الله تعالى
    { وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة }
    فالإلقاء بالأيدي إلى التهلكة أن نقيم في أموالنا ونصلحها وندع الجهاد
    قال أبو عمران فلم يزل أبو أيوب يجاهد في سبيل الله حتى دفن بالقسطنطينية (ابوداؤد : 2512)۔

    جناب اسلم ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے، ہم قسطنطنیہ جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمن بن خالد ہمارے امیر جماعت تھے۔ رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن پر ہلہ بول دیا تو لوگوں نے کہا: رکو، تھہرو! لا إله إلا الله، یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نصرت فرمائی اور اسلام کو غالب کر دیا تو ہم نے کہا : چلو اب ذرا اپنے اموال و جائیداد میں رک جائیں اور ان کو درست کر لیں، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، ہلاکت میں ڈالنا یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں، ان کی اصلاح میں مشغول ہو جائیں اور جہاد چھوڑ دیں۔ ابو عمران نے کہا: چنانچہ ابو ایوب انصاری (رض) اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے، حتی کہ قسطنطنیہ ہی میں دفن ہوئے

    وہ شخص کہ جس کی شہادت اس میں یقینی تھی دشمنوں کی صف میں گھس گیا اور اسے چیرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ جس پر لوگوں نے اسے 'ہلاکت میں ڈالنے' سے تشبیہ دی۔ جس پر حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے ان کی اس تاویل کو رد کر دیا اور آیت کی اصل تفسیر پیش کی۔ اس کے علاوہ اور بے تحاشہ دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ایک اکیلہ شخص دشمن کو نقصان پہنچانے کیلئے اس پر وار کر سکتا ہے اگرچہ اسے یقین ہی کیوں نہ ہو کہ وہ اس میں مارا جائے گا۔ آیات قرآنی، حدیث رسول، آثار صحابہ، سلف صالحین و محدثین کرام کے قول اور ان کے باندھے جانے والے باب [جنھیں وقت اور مضمون کی طوالت کی بنا پر پیش نہیں کیا گیا] کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی علماء نے ان فدائی حملوں کو جائز قرار دیا ہے۔

    نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
    عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال من خير معاش الناس لهم رجل ممسك عنان فرسه في سبيل الله يطير على متنه كلما سمع هيعة أو فزعة طار عليه يبتغي القتل والموت مظانه (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)۔

    لوگوں میں سے بہترین زندگی والا شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام کو اللہ کی راہ میں تھامے ہوئے ہے۔ جب بھی کسی شور و شغب یا گھبراہٹ کی آواز سنتا ہے تو اس کی پیٹھ پر اڑ پہنچتا ہے وہ قتل اور موت کو موت کی گھاٹیوں سے تلاش کرتا ہے۔

    اور اگر کوئی لفظوں کا ہیر پھیر کر کے "خودکش حملوں" کو خودکشی سے تشبیہ دیتا ہے تو ہم ان "شہیدی حملوں" کو شہادت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اور ہمارے محدود علم کے مطابق تو ماضی کے بہت سے مفتیان کرام نے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کو نیچے لیٹ جانے کو بھی عظیم موت قرار دیا تھا۔ تو کیا وہ ایک چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکے۔

    وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
    36:17

    نوٹ: مزید جاننے کے لیے آپ 'ابو عمرو عبدالحکیم حسان' کی تصنیف "الادلۃ الواضحۃ الجلیۃ فی حکم العملیت الاستشھادیۃ" کا مطالعہ کر سکتے ھیں۔

  4. #4
    meharge's Avatar
    meharge is offline Senior Member+
    Last Online
    11th February 2015 @ 11:37 PM
    Join Date
    30 Jan 2009
    Location
    الدوحة - قطر
    Age
    45
    Gender
    Male
    Posts
    870
    Threads
    65
    Credits
    997
    Thanked
    23

    Default

    very very nice
    آئی ٹی دنیامیں سیگنیچرز میں اتنے بڑے سائز کی امیج لگانا سختی کے ساتھ منع ہے۔۔۔آئی ٹی دنیا ٹیم

  5. #5
    zubairras123 is offline Junior Member
    Last Online
    24th August 2019 @ 12:11 AM
    Join Date
    26 Jan 2009
    Age
    40
    Posts
    17
    Threads
    1
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    ALLah Jazai khair ata farmawa

Similar Threads

  1. Replies: 22
    Last Post: 10th March 2015, 05:24 PM
  2. Replies: 2
    Last Post: 27th April 2013, 12:33 PM
  3. Replies: 2
    Last Post: 22nd April 2011, 06:21 PM
  4. Replies: 12
    Last Post: 4th November 2009, 05:17 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •