Assalam u alaikum
*لفظ "" مولوی "" کا مذاق اُڑانے والوں کے لیے*
" *شہاب نامہ "سے ایک انمول اقتباس*
’’یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔
اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔
اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔
ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا
دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں،
جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے،
اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔
کوئی شخص وفات پا جاتا ہے،
تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے،
کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔
اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے۔
یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔
برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟
نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے،
انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں،
اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے،
کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں،
وہ انمول ہے‘‘ ۔ یہ وہ کارنامے ھیں جسکا تعلق ھر عام وخاص سے ھے!
Bookmarks