غزل

مجھے فرشتہ نہیں اک بشر بنایا گیا
سو غلطیوں میں گرفتار میں ہی پایا گیا

سیاسی کھیل کا میدان جب سجایا گیا
تو سارے شہر کو ماتم کدہ بنایا گیا

اسی لئے تو میں چین اور سکوں سے جیتا ہوں
کہ مجھ سے عشق کا ملبہ نہیں اٹھایا گیا

خدا کا حکم نہ مانا وہ راندہء درگاہ
اسی لیے تو وہ جنت سے ہے بھگایا گیا

احد احد کی صدا وادیوں میں گونج اٹھی
سلگتی ریت پہ جب عشق کو سلایا گیا

وہیں سے عشق تناور درخت بن کے اگا
وہ گرم، سخت زمیں میں جہاں دبایاگیا

وہاں پہ سینکڑوں سالم دئیے بھی روشن تھے
بس اس شکستہ دیئے کو ہی کیوں بجھایا گیا

بس اتنی بات کہ حق بات بولتا تھا میں
فریب دے کے مجھے زہر تھا کھلایا گیا

پھر اس کے باپ کی آواز ہی دبا دی گئی
کسی غریب کی بیٹی کو جب جلایا گیا

وہ شاعری سے محبت کو عام کرتا تھا
صلیب پر مرے جالب کو کیوں چڑھایا گیا
نہال جالب