غیراللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟
ياايها الناس ضرب مثل فاستمعوا له ان الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا له وان يسلبهم الذباب شيئا لا يستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب (الحج: 73-74)
ترجمہ: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔ مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:
• وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسان کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔
• انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔
قل افرءيتم ما تدعون من دون الله ان ارادني الله بضر هل هن كاشفات ضره او ارادني برحمة هل هن ممسكات رحمته قل حسبي الله عليه يتوكل المتوكلون (الزمر: 38)
ترجمہ: کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسا رکھنے والے اسی پر بھروسا رکھتے ہیں
اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ:
• وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
• وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔
• مشرک کا بھروسا غیراللہ پر ہوتا ہے۔
• مومن کا بھروسا صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا یہ قول پڑھیے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی مخلوق کی کیا حیثیت ہے ایک بہترین مثال سے اس کو سمجھا رہے ہیں۔
تیرے دل کا لگاؤ مخلوق میں سے کسی چیز سے نہ رہے۔ اور تمام مخلوق کو اس شخص کی طرح بے بس اور عاجز سمجھ جس کو ایک بڑی سلطنت والے ایک بڑے رعب و دبدبے والے، ایک بڑی شان و حکم والے بادشاہ نے گرفتار کرایا ہو، اس شخص کی گردن میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں اور اسے ایک درخت کے ساتھ پھانسی لٹکا دے اور وہ درخت ایک ایسے دریا کے کنارے اگا ہوا ہے جس کی موجیں تیز اور جس کا پھیلاؤ وسیع اور جس کی گہرائی بہت ہو۔ پھر بادشاہ ایسے تخت پر بیٹھا ہو جس تک پہنچنا بہت مشکل ہو۔نیز اس بادشاہ نے اپنے پاس تیروں، نیزوں اور کمانوں کا ایک ایسا انبار لگا رکھا ہو جس کا اندازہ بادشاہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ بادشاہ اس پھانسی پر لٹکے ہوئے شخص پر جس ہتھیار کو چاہے پھینک رہا ہے پس کیا اس شخص کے لیے جو یہ سب ماجرا دیکھے ممکن ہے کہ ایسے بادشاہ کی طرف سے نظر ہٹا لے، اس سے خوف نہ رکھے امید نہ رکھے بلکہ پھانسی لگے ہوئے شخص سے ڈرے اس سے امید رکھے، جو کوئی ایسا کرے گا وہ، جہاں تک عقل و سمجھ کا تعلق ہے، دیوانہ،مجنون، حیوان مطلق اور خارج از انسانیت نہ ہوگا؟ پس اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوبصیرت کے بعد (حق سے) اندھا ہونے سے، وصولی بارگاہ قدس کے بعد قطع ہونے سے، قرب کے بعد دوری سے، ہدایت کے بعد گمراہی سے، اور ایمان کے بعد کفر سے۔ (فتوح الغیب وعظ 17)
صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابوسفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔ غور سے پڑھیے!
قال ابو سفيان اعل هبل (صنمهم الذي يعبدونه)
ترجمہ: ابوسفیان نے کہا: ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘
قال قولوا الله اعلى و اجل
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘
قال ابو سفيان لنا العزى ولا عزى لكم
ترجمہ: اس پر ابوسفیان بولا: ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول قال قولوا الله مولانا ولا مولى لكم
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ: )
دعا کے ذیل میں حضرت شیخ ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:
تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔ تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔ تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے
ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین (الاعراف -55)
یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔
کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔ (ملفوظات شیخ)
دو تصویریں
مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الہوں کو اپنا سفارشی اورمتصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے،پہلی مثال
ارشاد ربانی ہے:
فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجاهم الى البر اذا هم يشركون (العنکبوت: 65)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فرمایا: فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچادینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔
سنن نسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:
اخلصوا فان آلهتكم لا تغني عنكم شيئا هاهنا (سنن النسائی)
ترجمہ: پورے اخلاص والے ہوجاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے۔
غلو کا شکار کیا کہتا ہے:
جہاز تاجراں گرداب سے فورا نکل آیا وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یاغوث اعظم کا
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، دوسری مثال
قرآن پاک میں آتاہے:
قل ارايتكم ان اتٰكم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون ان كنتم صادقين() بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء وتنسون ما تشركون() (الانعام: 40-41)
ترجمہ: کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
سنن الترمذی کی روایت ہے :
عن عمران بن حصين: قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي كم تعبد اليوم الها فقال ستة في الارض وواحدا في السماء قال فايهم تعد لرغبتك ورهبتك قال الذي في السماء (سنن الترمذی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: ’’آج کل تم کتنے الہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا: ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے( کی)۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (مزید) پوچھا:’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘
یعنی تمام امور میں وہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔ اب پڑھیے توحید ناواقف کیا کہتا ہے:
المدد یاغوث اعظم المدد یادستگیر تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔بہترین سازگار۔
مشرکین مکہ شفا اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے، تیسری مثال
مشرکین عرب نے رسول اللہ ﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کردیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:
لو رايت هذا الرجل لعل الله يشفيه على يدي (صحیح مسلم)
ترجمہ: اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔
یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔لا الہ کی حقیقت سے ناشناس کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے عجب دارالشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیراللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔