شفاعت کس کو کہتے ہیں؟
مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
ترجمہ: یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہنچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا اس کی تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا اس کی چاہت کے سبب۔
وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا بااختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔
چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت (چاہت) ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔ وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔ سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله
ترجمہ: کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔
لا يملكون مثقال ذرة في السموت ولا في الارض
ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں
یعنی وہ قطعی بے حیثیت ہیں۔
وما لهم فيهما من شرك
ترجمہ: اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے
و ما له منهم من ظهير ()
ترجمہ: اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له حتىٰ اذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير()
ترجمہ: اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
البتہ یہ ضرور ہے کہ روز محشر اللہ اپنے بعض بندوں کوگناہ گاروں کی شفاعت کی اجازت دیں گے۔ یہ شفاعت اللہ کا اپنے بندوں پر کرم ہو گا، اپنے نیک بندوں کا اکرام ہو گا۔
کرامت کی حقیقت
شرک کی بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے کے اختیارات ہیں۔ اس عقیدے کی بنیاد بزرگان دین کی کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس کے تحت نظام کائنات چل رہا ہے۔مثلا آگ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون کو جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون کو توڑ دیتا ہے۔ اس کو خرق عادت کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا کے لیے ہوئی تو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی کے واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں کو ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔
معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ کے معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اس طرح آتا ہے:
انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کی مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں
اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی لک ھٰذا قالت ھو من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر حساب (آل عمران- 37 )
ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے،انہوں نے پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے کہا اللہ کے پاس سے،بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔
کرامت کو حق ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی کے واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام: 35)
ترجمہ: اور (اے حبیب ﷺ ) اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ
نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضح نہ ہو تو نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو اللہ کے حکم سے تھا۔فرمایا و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ (میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں)۔
سورہ انفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی() (الانفال-17 )
ترجمہ: اور (اے محمد ﷺ ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔
یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
اسی طرح اولیا کرام کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
’’جب تم اپنی مرضی مولا کی مرضی میں مٹا دو گے تو پھر تم بشری اوصاف سے پاک ہوجاؤ گے تمہارا باطن ارادہ الہی کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (کن فیکون ،تصرفات) اور خرق عادت (کرامات) کی نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل و تصرف ظاہر عقل وحکم کے اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا حالانکہ وہ تکوین اور خرق عادت حقیقت میں اللہ کے فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں کو تبدیل کرنا ہے۔معجزوں یا کرامتوں کی حیثیت بس ایک ذریعہ کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک و مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان کو توحید کی حدوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف محض اللہ رب العزت ہی کو حاصل ہے۔