اسلام امن اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ انبیائے کرامؑ، صحابہ کرامؓ، تابعین و تبع تابعین اور اولیائے کرامؒ کے واقعات اگر
پڑھے جائیں تو ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اگر دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کافر کوایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا
جب قبیلہ طے کا قافلہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو اس وقت ایک نوجوان لڑکی کا بچہ گم ہوگیا، وہ ماں تھی اور بھاگتی پھر رہی تھی کہ میرا بیٹا کہاں ہے، اس حالت میں اس کے سر سے چادر بھی اترگئی وہ اچانک نبی کریم ﷺ کے سامنے آگئی۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی چادر مبارک ایک صحابیؓ کو دے کر فرمایا کہ اس لڑکی کو دے دو تاکہ وہ سر ڈھانپ لے۔ وہ صحابیؓ کہنے لگے، اے اللہ کے نبیؐ! وہ تو ایک کافر کی بیٹی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اگرچہ کافر کی بیٹی ہے مگر بیٹی تو ہے، آج اگر تو اس کے سر کو ڈھانپے گا تو کل اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تیرے عیبوں پر رحمت کی چادر عطا فرما دیں گے۔ احترام انسانیت کا یہ درس اللہ کے پیارے حبیبؐ نے ہمیں عطا فرمایا۔

احترام انسانیت کا نبوی نمونہ
ثمامہ بن اثالؓ ایک صحابی ہیں۔ وہ یمامہ میں رہتے تھے، ان کی طرف سے مکہ والوں کو گندم آیا کرتی تھی، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کو پتا چلا کہ مکہ والے نبی کریم ﷺ کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد گندم کا ایک بھی دانہ مکہ کو نہیں پہنچے گا، چناں چہ مکہ والے مصیبت میں پڑگئے۔ جب ثمامہ بن اثالؓ مکہ میں آئے تو کہہ دیا کہ جب تک میرے محبوبؐ اجازت نہ دیں گے یمامہ سے گندم کا ایک بھی دانہ نہیں آئے گا۔ مکہ والوں نے نبی کریمؐ کے نام ایک رقعہ لکھا، آپؐ تو رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیتے ہیں، ہماری گندم بند ہوگئی اور ہم بھوک کی وجہ سے مرنے لگے ہیں، آپؐ رحم فرمائیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ایک مکتوب لکھا کہ اے ثمامہ! ان کی گندم نہ روکو۔ چناں چہ اللہ تعالی کے حبیبؐ کے کہنے پر مکہ والوں کی گندم کی ترسیل دوبارہ شروع ہوگئی۔
نی اسرائیل میں ایک بہت مال دار یہودی تھا۔ اس زمانے میں لوگ اپنی دولت زیر زمین تجوریاں بنا کر اس میں رکھا کرتے تھے۔ اس یہودی نے خزانے میں سونے چاندی کے انبار اور ڈھیر جمع کیے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ یہودی اپنے خزانوں کا خفیہ طور پر معائنہ کرنے کے لیے گیا اور جب اندر گیا تو اس چوکی دار کو بھی اطلاع نہیں کی جس کو وہاں خزانے پر اس نے مقرر کیا تھا تاکہ یہ دیکھے کہ وہ چوکی دار کہیں خیانت تو نہیں کر رہا۔ اس خزانے کے دروازہ ایسا تھا کہ وہ اندر سے بند تو ہوتا تھا لیکن اندر سے کھل نہیں سکتا، صرف باہر سے کھل سکتا تھا۔ اب اس نے بے خیالی میں دروازہ اندر سے بند کرلیا اب کھولنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ باہر چوکی دار تھا وہ یہ سمجھتا رہا کہ خزانہ تو بند ہے اور اس کے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ خزانے کا مالک اندر ہے۔
اب یہ مالک اندر جاکر خزانے کی تفتیش کرتا رہا اور جب دیکھ بھال سے فارغ ہوکر اس نے واپس باہر نکلنا چاہا تو باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب وہاں قید ہوگیا، بھوک لگ رہی ہے اور خزانہ سارا موجود ہے لیکن بھوک نہیں مٹا سکتا، پیاس ہے اور خزانہ سارا موجود ہے لیکن پیاس نہیں بجھا سکتا، رات کو نیند آرہی ہے اور خزانہ سارا موجود ہے لیکن بستر فراہم نہیں کرسکتا۔ حتی کہ جتنے دن بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا تھا زندہ رہا اور پھر اسی خزانے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ روپیہ پیسہ اپنی ذات میں انسان کو نفع پہنچانے والی چیز نہیں ہے، جب تک کہ نظام درست نہ ہو اور جب تک راستہ درست نہ ہو۔

دولت کو جمع کرنا اور اس کے انبار لگانا سمجھ داری نہیں بل کہ اسے ٹھیک طریقے سے خرچ کرنا سمجھ داری ہے۔ اسی لیے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اگر دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کافر کوایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ اس لیے سمجھ دار لوگ دولت کے انبار سے اجتناب کرتے اور دنیا میں مسافر کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔

رسول کریمؐ کا یہودی سے حُسنِ سلوک
زین بن سعنہ یہودی علماء میں سے ایک عالم تھے اور ان کے پاس مال بھی تھا، انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ کئی غزوات میں حصہ بھی لیا، جب وہ تبوک سے مدینہ کی طرف آ رہے تھے تو راستے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان سے عبداللہ بن سلام نے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں نے نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تو میں نے آپؐ میں نبوت کی تمام علامات دیکھ لیں، سوائے دو کے جن کا مجھے پتا نہ چل سکا۔


بہ قول ان کے وہ صفتیں کون سی تھیں؟ تورات میں لکھا ہوا تھا آخری نبیؐ کا حلم ان کے غصے پر غالب ہوگا اور اگر اس کے ساتھ کوئی جہالت کا برتاؤ کرے گا تو ان کا حلم اور زیادہ بڑھ جائے گا۔ فرماتے ہیں: یہ دو علامتیں ایسی تھیں جو مجھے ڈھونڈنی تھیں۔ چناں چہ فرماتے ہیں اب میں منصوبہ بنا رہا تھا تاکہ مجھے کوئی موقع ملے اور میں ان کے ساتھ میل جول کر سکوں کہ (معلوم ہو) ان کا حلم کتنا ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ ایک دن اپنے حجرے میں سے نکلے اور حضرت علیؓ آپؐ کے ساتھ تھے، ایک آدمی اپنی سواری پر آیا، جیسے دیہاتی ہوتا ہے وہ کہنے لگا: اے اللہ کے پیارے حبیبؐ! فلاں قریے کے لوگ ایمان لے آئے، اگر آپ ان کو کوئی مدد بھجوانا چاہیں تو آپ ان کو بھیج سکتے ہیں، وہ قحط کا شکار ہیں۔

اس وقت اللہ کے حبیبؐ کے پاس کوئی چیز نہیں تھی۔ زین کہتے ہیں، میں ذرا قریب ہوا اور کہا : اے محمد! (ﷺ) اگر آپ کہتے ہیں تو فلاں باغ کی اتنی کھجوریں آپ مجھے بیچ دیں۔ مقصد یہ تھا کہ میں ابھی دیتا ہوں، بعد میں آپ مجھے کھجوریں دے دینا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: میں تمہیں کھجوروں کا اتنا وزن دوں گا، اس باغ کی کھجوروں کی شرط نہیں (یہ بیع سلم کہلاتی ہے) میں نے کہا: چلو ٹھیک ہے، پس سودا ہوگیا اور میں نے آپؐ کو اسّی دینار دے دیے۔
نبی کریمؐ نے وہ اسّی دینار اس بندے کو دے دیے اور فرمایا : یہ ان لوگوں کے لیے لے جاؤ۔ زین کہتے ہیں: ابھی مقررہ دن سے دو تین دن باقی تھے، نبی کریمؐ ایک انصاری صحابیؓ کے جنازے کے لیے تشریف لائے اور آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر، عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم بھی تھے، جب جنازہ پڑھ لیا تو میں آیا اور میں نے نبی کریمؐ کی قمیص اور تہبند کو پکڑلیا اور بڑے غصے سے نبی کریمؐ کو دیکھا، پھر میں نے کہا: اے محمد! (ﷺ) کیا تم میرا حق نہیں دوگے؟ اللہ کی قسم! یہ عبدالمطلب کی اولاد کے لوگ قرض کی ادائی میں بہت بُرے ہیں یعنی ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، اس نے جان بوجھ کر غصہ دلانے والی بات کی۔

میں نے حضرت عمر ؓکی طرف دیکھا تو انہوں نے فرمایا: اے اللہ کے دشمن! تو اللہ کے حبیبؐ کو یہ کہہ رہا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا، اگر مجھے اس حق کے فوت ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیرا سر اڑا کے رکھ دیتا۔
اللہ کے حبیبؐ نے حضرت عمرؓ کو بڑے سکون کے ساتھ اور مسکراتے ہوئے دیکھا پھر نبی کریمؐ نے فرمایا: اے عمر! میں اور وہ تیرے ایسے رویے کے محتاج نہیں، یعنی تیرا رویہ اور ہونا چاہیے تھا وہ یہ کہ تُو اس سے کہتا کہ تو اچھی طرح سے اپنا قرض مانگ اور مجھے کہتا کہ جی آپ قرضے کی ادائی میں جلدی کریں۔ پھر اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا: اے عمر! جاؤ اور اسے اس کی کھجوریں دے دو اور بیس صاع کھجوریں زیادہ دینا، اس لیے کہ تونے اس کو دھمکی دی ہے۔ زین فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ میرے ساتھ گئے، انہوں نے مجھے کھجوریں دیں اور انہوں نے بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں، پھر میں نے اسلام قبول کرلیا۔
کیا شان ہے نبی پاکؐ کی کہ کفار کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آرہے ہیں اور ان کے حقوق کی ادائی کا حکم دے رہے ہیں۔