پر لیٹے ہوئے تھے اور کے اچانک بیل(bell)کی آواز آئی تو چونکہ وہ گھر میں اکیلے رہتے تھے اور ان کا کوئی نوکر بھی نہ تھا اس لیے جب انہوں نے bell کی آواز سنی تو پریشان ہوگئے۔بیس منٹ یہ سوچنے پر لگا دیے کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔پھر دس منٹ بیڈ سے اٹھنے پر لگا دیے پھر آدھا گھنٹہ دروازے پر پہنچنے پر لگا دیے۔بیچارا آدمی ایک گھنٹے تک دروازے پر کھڑا رہا۔جب انکل چھوڑو نے دروازہ کھولا تو ان کے بچپن کے دوست بدھو بھائی تھے۔انکل چھوڑو نے انہیں کہا کہ آپ باہر کیوں کھڑے ہیں اور آپ کون ہیں اور اپ میرا خوبصورت چہرہ کیوں دیکھ رہیں ہیں۔
بدھو بھائی نے کہا میں آپ کا بچپن کا دوست بدھو بھائی ہوں۔انکل نے کہا ٹھیک ہے پھر آپ اندر آسکتے ہیں بس میرا چہرہ مت دیکھیں مجھے شرم آتی ہے۔بدھو بھائی جب انکل چھوڑو کے کمرے میں آۓ تو وہ اس طرح گندہ تھا جیسے سالوں تو صدیوں سے یہ کمرہ کسی نے صاف نہ کیا ہو ۔جب بدھو بھائی نے ٹی وی ان کیا تو ٹی وی میں سواۓ جیک جیک کی آواز آرہی تھی ۔جب بدھو بھائی سے کہا کہ کیبل نہیں آرہی ہے تو انکل چھوڑو نے کہا ایک تو کیبل والے بل بھی اتنا دیتے کہ کیا بتاؤں ویسے بتانے کو تو میں کیا نہیں بتاسکتا ۔ایک تو بندہ بل بھی نہ دے تو کیبل کاٹ دیتے ہیں اب بتاؤ کے میں کیا کروں ویسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔بدھو بھائی نے کہا ٹھیک ہے مجھے بھوک لگی ہے کھانا لاؤ ۔انکل چھوڑو نے کہا کیا میں ویٹر ہوں اور اگر ہوں تو میں نے ویٹر والے کپڑے کیوں نہیں پہنے ۔ویسے میں تو کیا کھانا بناتا ہوں کہ لوگ دیکھتے ہی منہ بنالیتے ہیں۔پھر وہ کچن میں گئے اور دو گھنٹے لگا کر سڑا ہوا آملیٹ بنایا۔بدھو بھائی نے جونہی آملیٹ کی شکل دیکھی اسی وقت انکل چھوڑو کے گھر سے بھاگ گئے۔
علی مجتبی،میرپور آزاد کشمیر