Results 1 to 2 of 2

Thread: بدعت کو سمجھیے-1: (تمہید، اعمال کی قسمیں)

  1. #1
    engr_jawed is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd October 2022 @ 03:16 PM
    Join Date
    20 Apr 2009
    Posts
    47
    Threads
    45
    Credits
    967
    Thanked
    0

    Default بدعت کو سمجھیے-1: (تمہید، اعمال کی قسمیں)

    تمہید
    سنن ترمذی، کتاب العلم میں حضرت عرباض بن ساریہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور ہمیں نہایت مؤثر انداز میں نصیحت فرمائی کہ ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں خوف پیدا ہوگیا۔ ایک شخص نے عرض کیا:
    حدیث
    يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد الينا
    ترجمہ: یارسول اللہﷺ یہ تو گویا کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں
    ’’گویا یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے‘‘، مطلب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے قریب کا واقعہہے۔ نصیحت کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہؓکو چند وصیتیں فرمائیں۔ ان میں جو آخری وصیت یہ تھی:
    فانه من يعش منكم بعدی فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتی و سنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجذ واياكم و محدثات الامور فان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة
    ترجمہ: میرے بعد جو تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا (حاشیہ: [1]) (تو تم میں سے جو یہ زمانہ پائیں) تو تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنتوں کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا اور دین میں نئی نئی باتوں (بدعات) سے بچنا اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
    یہ گویا رسول اللہ ﷺ کی اپنے امتیوں کے لیے وصیت تھی جس میں یہ خبر دی گئی کہ آپ ﷺ کے بعد اختلافات سامنے آئیں گے اور ایسے موقع پر بچنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے خلفائے راشدینؓ کی سنت۔ اس وصیت میں امت کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ بدعتوں سے بچنا ہے کیوں کہ بدعت گمراہی ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں:
    کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار (كتاب صلاة العيدين)
    ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی (کا انجام) آگ ہے
    حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے:
    حدیث
    اما بعد فان خير الحديث كتاب الله وخير الهدی هدی محمد وشر الامور محدثاتها وكل بدعة ضلالة (مسلم، کتاب الجمعۃ)
    ترجمہ: (حمد و صلوۃ کے بعد سمجھو) کہ بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین ایجاد بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے
    ان تمام روایات سے بدعت کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے جس کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ بدعت سے بچے تاکہ اپنی عاقبت سنوار سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    آیت
    الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون انهم يحسنون صنعا (الکہف: 104)
    ترجمہ: وہ لوگ جن کی کوشش دنیا ہی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں
    یہ بدعت کا انجام ہے کہ انسان اپنے خود تراشیدہ اعمال کو نیکی سمجھ کر خوش ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک ان کے اعمال کا نہ کوئی وزن ہے نہ ثواب بلکہ الٹا گناہ ہے۔
    بدعت کس کو کہتے ہیں؟ شریعت نے اس سے کیوں منع فرمایا؟ اس مضمون میں اسی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس موضوع کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ جو ترتیب وار پیش خدمت ہیں۔
    پہلی بات: اعمال کی قسمیں
    ایک مسلمان جو اعمال کرتا ہے ان کی دو بنیادی قسمیں ہیں:
    1) اعمال دنیا
    2) اعمال طاعت
    اعمال دنیا
    یہ وہ کام ہیں جو انسان دنیا کے لیے کرتا ہے جیسے تجارت زراعت ملازمت وغیرہ۔ ان اعمال کے کرنے میں اس کے پیش نظر دنیا کا فائدہ ہوتا ہے یہ وہ اعمال ہیں جن کی محنت یہاں اور صلہ بھی یہاں ملتا ہے (حاشیہ:[2] )۔ ان کاموں کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    حدیث
    انتم اعلم بامور دنیاکم (صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
    ترجمہ: تم اپنے دنیا کے امور بہتر جانتے ہو
    اعمال طاعت یا اعمال آخرت
    یہ وہ کام ہیں جو انسان آخرت میں اجر کی امید پر کرتا ہے۔ آخرت میں اجر کی امید پر کئے گئے اعمال انسان دو طریقوں سے کرتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے طریقے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ ان کو اعمال طاعات کہہ سکتے ہیں۔
    دوسرے وہ اعمال ہیں جو کیے تو آخرت میں اجر کی امید پر ہیں لیکن یہ وہ اعمال ہیں جو لوگ خود بنا لیتے ہیں۔ ان اعمال کا کوئی ثبوت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے یہاں سے نہیں ملتا۔ ان کو بدعات کہا جاتا ہے۔
    اعمال گویا تین قسم کے ہوئے:
    1) ایک وہ جن کی محنت یہاں اور صلہ بھی یہیں متوقع ہوتا ہے۔ یہ اعمال دنیا ہیں۔
    2) دوسرے وہ جن کی محنت یہاں (دنیا میں) اور جزا و صلہ وہاں (آخرت) ملے گا۔ یہ اعمال طاعات ہیں جو سنت کے مطابق کیے جاتے ہیں۔
    تیسرے وہ اعمال ہیں جن کی محنت یہاں مگر ان کی جزا نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں۔ یہ بدعات ہیں۔ یہاں اس لیے نہیں کہ وہ کیے ہی آخرت کے لیے گئے تھے اور آخرت میں اس لیے نہیں کہ وہ اعمال سنت کے مطابق نہیں کیے جاتے۔ ان اعمال کی مثال وہی ہے جو سورۃ کہف کی مذکورہ آیت (‏آیت 1، ص 4) میں بیان کی گئی ہے۔
    [1]:اس میں یہ نکتہ بھی ہے کہ بدعات اختلافات کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کو سامنے رکھ کر انسان بہت آسانی سے اہلسنت و الجماعت اور اہل بدعت میں فرق جان سکتا ہے۔ وہ جن کی ’’دینداری ‘‘اختلافات کو پھیلانے سے چلتی ہو ان سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔
    [2]:گو ان اعمال میں شریعت کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے سے ان پر اجر ملتا ہے ۔مثلا: سچا تاجر آخرت میں انبیا کے ساتھ ہوگا۔

  2. #2
    Join Date
    23 Jun 2007
    Location
    *~Fateh Jang~*
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    38,526
    Threads
    2402
    Credits
    28,617
    Thanked
    3764

Similar Threads

  1. Replies: 12
    Last Post: 14th November 2021, 08:05 AM
  2. Replies: 12
    Last Post: 30th July 2016, 12:13 PM
  3. Replies: 2
    Last Post: 6th March 2016, 01:43 PM
  4. Replies: 13
    Last Post: 24th December 2009, 08:21 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •