اس مضمون کی دوسری قسط میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ یہاں پھر پیش خدمت ہے۔
درخواست ہے اس مضمون کی ساری قسطوں کو پڑھیں ان شاءاللہ بدعت کے موضوع سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بدعت کی تعریف سے پہلے یہ چند اصولی باتیں بھی جاننا ضروری ہے۔ ان باتوں کو جان لینے کے بعد بدعت کے مسئلے میں صحیح بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
1) بدعت سے مراد بدعت شرعی ہے نہ کہ بدعت کا لفظی مفہوم۔
پچھلی قسط میں حدیث عرباض میں رسول اللہ ﷺنے اپنے اسوہ کا تقابل بدعت سے کیا ہے یعنی بدعت کا لفظ سنت کے مقابل ہے۔ جو چیز سنت ہے وہ بدعت نہیں ہوسکتی اور جو چیز بدعت ہو وہ سنت نہیں ہوسکتی۔ سنت کے دائرے میں ہر وہ چیز شامل ہے جن پر ان تین زمانوں میں جن کے خیر ہونے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اطلاع دی بغیر کسی روک ٹوک کے مسلمانوں کا عمل درآمد رہا۔
2) بدعت کا موضوع تعبدی امور (عبادت والے کام) ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو نیکی سمجھ کر کیے جاتے ہیں اور انسان کو اس پر اجر کی امید ہوتی ہے۔ ان کے مختلف درجات ہیں جیسے فرض، واجب، سنت اور مستحب وغیرہ۔ اعمال کے یہ سب درجے شریعت مقرر کرتی ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں سب عبادات توقیفی (ت و ق ی ف ی) ہیں یعنی ان کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ملتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی عمل گھڑنا اور نیکی سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے تمام نام، جن کا پڑھنا نیکی ہے، توقیفی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ثابت ہیں۔ لیکن کوئی شخص اپنی طرف سے اللہ کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو یوں بھی کہتے ہیں کہ تعبدی امور میں نقل موجود ہونا ضروری ہے۔ تعبدی امور طاعات اور بدعات میں تقسیم ہیں۔
3) عادات (دنیاوی امور) بدعت کا موضوع نہیں ہیں۔ عادات و معاملات (دنیاوی امور) انسان خود ترتیب دیتے ہیں۔ یہ انسانوں کے اپنے ماحول اور تجربات سے بنتے ہیں۔ اسی لیے ہر ملک و علاقے میں یہ مختلف ہوتے ہیں(حاشیہ: [1])۔ دنیاوی امور میں نظر ضرورت پر ہوتی ہے۔ یہ امور جائز اور ناجائز میں تقسیم ہیں۔ ان میں اصل اباحت ہے، یعنی جائز ہیں جب تک شریعت سے منع ثابت نہ ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
حدیث
انتم اعلم بامور دنیاکم
ترجمہ: تم اپنے دنیا کے امور بہتر جانتے ہو
4) بدعت کا تعلق مسائل سے ہے ذرائع سے نہیں۔ اصل چیز مسئلہ ہے نہ کہ ذریعہ۔ وقت و حالات کے تحت ذرائع بدل سکتے ہیں، مثلا:
*صاحب استطاعت پر حج فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اونٹوں کے ذریعے مکہ مکرمہ پہنچا جاتا تھا۔ ہمارے دور میں مکہ مکرمہ پہنچنے کے دیگر ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ اصل چیز مکہ مکرمہ پہنچنا ہے نہ کہ ذریعہ۔
*قرآن کریم صحیح پڑھنا دین کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قرآن کے الفاظ پر اعراب (زیر، زبر پیش وغیرہ) لگانا مسائل میں سے نہیں ہے ذرائع میں سے ہے۔
* اسی طرح دین کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دینی مدارس کا قیام ذرائع میں سے ہے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مسائل اور ذرائع کے اس فرق کو سامنے رکھیں تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ:
* مسجدوں میں گھڑی پنکھے وغیرہ لگانا ایک ضرورت ہے دین نہیں۔ یہ ذرائع ہیں مسائل نہیں۔
* وقت کے قومی ملی اور دینی تقاضوں کے لیے مجالس و اجتماعات بھی ذرائع ہیں خود دین نہیں۔
* دنیاوی کام اور نئی نئی ایجادات سب اس سے نکل گئیں اس لیے کہ یہ بھی دین نہیں۔
اوپر بیان کیے گئے پانچ امور کو سامنے رکھ کر کسی چیز کے شرعی بدعت ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور جو چیز شرعی بدعت ثابت ہوگئی اس سے بچنا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ دین میں اضافہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
Bookmarks