Results 1 to 4 of 4

Thread: بدعت کو سمجھیے-9: (صحابہ کرامؓ کا رد بدعت)

  1. #1
    engr_jawed is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd October 2022 @ 03:16 PM
    Join Date
    20 Apr 2009
    Posts
    47
    Threads
    45
    Credits
    967
    Thanked
    0

    Default بدعت کو سمجھیے-9: (صحابہ کرامؓ کا رد بدعت)

    صحابہ کرام کا رد بدعت
    عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه انه قال اتبعوا آثارنا ولا تبتدعوا فقد كفيتم(شعب الایمان، للبیھقی)
    ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم لوگ ہمارے آثار کا اتباع کرو اور بدعتیں نہ گھڑو اس لیے کہ تم کفایت کیے گئے ہو۔‘‘
    ’’تم کفایت کیے گئے ہو‘‘ یعنی تمہارے لیے عبادات کا تعین ہوچکا ہے۔
    ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور تابعین ؓنے سنت میں کسی طرح کا اضافہ یا تبدیلی گوارا نہیں کی۔
    مثال 1: عقیقے میں اونٹ کی قربانی
    مستدرک حاکم، کتاب الاضاحی کی ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمن کے گھر اولاد نہیں ہوتی تھی تو گھر کی کسی عورت نے نذر مانی کہ اگر عبدالرحمن کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ہم عقیقے میں ایک اونٹ ذبح کریں گے۔ اس پر سیدۃ عائشہؓ نے فرمایا:
    حدیث
    لا بل السنة افضل عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة
    ترجمہ: نہیں بلکہ سنت ہی افضل ہے وہ یہ کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریا ں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری (کافی) ہے
    بظاہر اونٹ کی قربانی سے زیادہ ثواب حاصل ہونا چاہیے لیکن سیدہ عائشہؓ نے اتباع سنت ہی پر زور دیا اور اپنی مرضی سے کسی اضافے کی اجازت نہیں دی۔
    مثال 2: چاشت کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنا بدعت ہے
    حدیث
    عن مجاهد قال دخلت انا وعروة بن الزبير المسجد فاذا عبد الله بن عمر جالس الى حجرة عائشة واذا ناس يصلون الضحى فسالناه عن صلاتهم فقال بدعة (صحیح البخاری، كتاب العمرة)
    ترجمہ: حضرت مجاہد ؒنے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے وہاں عبداللہ بن عمرؓ حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کچھ لوگ جمع ہوکر مسجد نبوی میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے عبداللہ بن عمرؓ سے ان لوگوں کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کہ بدعت ہے
    چاشت کی نماز اپنی جگہ پر ثابت ہے لیکن اجتماعی طور پر پڑھنے کا ثبوت نہیں اس لیے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے اس طور پر پڑھنے کو بدعت قرار دیا۔
    حدیث
    مثال 3: زور سے بسم اللہ پڑھنا
    عن ابن عبد الله بن مغفل قال سمعني ابي وانا في الصلاة اقول بسم الله الرحمن الرحيم فقال لي اي بني محدث اياك والحدث قال ولم ار احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ابغض اليه الحدث في الاسلام يعني منه قال وقد صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ومع ابي بكر ومع عمر ومع عثمان فلم اسمع احدا منهم يقولها فلا تقلها اذا انت صليت فقل الحمد لله رب العالمين قال (سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ)
    ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مغفل بتاتے ہیں کہ میں نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیمزور سے پڑھی جو میرے والد نے سنی تو مجھ سے کہا:’’یہ بدعت ہے اور تم بدعت سے دور رہو۔‘‘ راوی مزید کہتے ہیں: ’’میں نے اصحاب رسول ﷺ میں ان سے زیادہ اسلام میں بدعت سے نفرت کرنے والے نہیں دیکھا۔‘‘ اور میرے والد صاحب نے فرمایا کہ میں نے اصحاب رسول ﷺ اور ابوبکرؓ عمرؓ اور عثمانؓ کے ساتھ نماز مگر کسی کو بلند آواز سے اس (بسم اللہ) کو پڑھتے نہیں سنا۔‘‘
    مثال 4: بیٹھ کر خطبہ دینا بدعت ہے
    ابی عبیدہ کعب بن عجرۃ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمن بن الحکم کو (خلاف سنت) بیٹھ کر خطبہ دیتے دیکھا تو فرمایا:
    حدیث
    انظروا الى هذا الخبيث يخطب قاعدا(صحیح مسلم، كتاب الجمعة)
    ترجمہ: دیکھو یہ خبیث بیٹھ کر خطبہ دیتا ہے
    مثال 5: اجتماعی ذکر
    سنن الدارمی میں سیدنا عبداللہ ابن مسعود کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا گزر مسجد میں ذکر کرنے والوں کی ایک جماعت پر ہوا جس میں ایک شخص کہتا تھا، سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو تو حلقے میں موجود لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے، پھر وہ کہتا سو بار لا الہ الا اللہ پڑھو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ پڑھتے، سیدنا عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا: ’’تم ان کنکریوں پر کیا پڑھتے تھے؟ـ‘‘وہ کہنےلگے: ’’ہم تکبیر و تہلیل پڑھتے ہیں۔‘‘ آپؓ نے فرمایا:
    حدیث
    فعدواسيئاتكم
    ترجمہ: تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو
    آگے ان سے فرمایا:
    مفتتحوبابضلالة
    ترجمہ: تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو
    اگرچہ ذکر وتسبیح کے بے شمار فضائل آئے ہیں لیکن سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ نے ان تمام فضائل کے باوجود ذکر و تسبیح میں اپنا طریقہ ایجاد کرنے کو بدعت قرار دیا۔
    مثال 6: فجر کی سنتوں کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ نماز پڑھنا
    مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاۃ میں ایک روایت میں کہ حضرت سعید بن مسیبؒ (تابعی) نے ایک شخص کو فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتوں سے زیادہ نماز پڑھتے دیکھا تو اس کو اس سے منع فرمایا۔ اس پر وہ شخص بولا:
    حدیث
    يا ابا محمد ءيعذبني الله على الصلاة
    ترجمہ: ’’اے ابومحمد (یعنی سعید ابن مسیب) کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر سزا دے گا؟‘‘
    قال لا و لكن يعذبك على خلاف السنة
    آپؒ نے جواب دیا: ’’(عبادت پر) نہیں لیکن تجھے سنت کی مخالفت پر سزا دیں گے۔‘‘
    آپؒ کا یہ سخت جواب اس لیے تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک فرمان کے مطابق فجر کی نماز کا وقت شروع ہوجائے تو صرف فجر کی دو سنتیں پڑھ سکتے ہیں۔
    مثال 7: خطبے کے وقت دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا
    حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو خطبہ میں کے وقت دونوں ہاتھ خلاف سنت اٹھاتے دیکھ کر فرمایا:
    حدیث
    قبح الله هاتين اليديتين القصيرتين القصيرتين لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يزيد على ان يقول هكذا واشار هشيم بالسبابة (سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، صحیح)
    ترجمہ: اللہ ان چھوٹے چھوٹے دونوں ہاتھوں کو برباد کردے میں نے رسول اللہ ﷺ کو (خطبے میں) اس طرح ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا اور ہشیم (راوی حدیث) نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا
    غور فرمائیں، خطبے کے وقت دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا آپ ﷺ کا طریقہ نہیں تھا بلکہ شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے، اس لیے اس کے خلاف کرنے والے کو حضرت عمارہؓ بن رویبہ نے بددعا دی۔
    مثال 8: تثویب کا رد
    ابوداؤد کی ایک روایت میں حضرت مجاہدؒ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے۔ ایک شخص نے (الصلوۃ، الصلوۃ کے ساتھ) تثویب (جو نماز کی یاددہانی کے کہی جاتی ہے) شروع کردی۔ سیدنا ابن عمرؓ نے (حضرت مجاہدؒ) سے کہا:
    حدیث
    اخرج بنا فان هذه بدعة (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، حسن)
    ترجمہ: مجھے یہاں سے لے چل اس لیے کہ یہ بدعت ہے
    یہ تھی صحابہ کرامؓ ؓ کی دینی غیرت کہ بدعت کو ایک لمحے لیے بھی گوارا نہیں کیا اور اس مسجد میں نماز بھی نہیں پڑھی۔ ظاہر ہے کہ اس شخص نے کوئی برا کام نہیں کیا تھا بلکہ لوگوں کو نماز کی دعوت دی تھی۔ لیکن کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اذان کے بعد صرف اقامت کہی جاتی تھی، یہ تثویب نئی چیز تھی اس لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس پر بدعت کا فتوی دیا۔
    حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا یہ ارشاد اور عمل اس بات کی دلیل ہے جو کام شریعت جس طرح ثابت ہوا ہو اس پر زیادہ کرنا منع ہے۔
    حدیث
    روي ان عليا راى مؤذنا يثوب في العشاء فقال اخرجوا هذا المبتدع من المسجد وعن ابن عمر مثله (بحر الرائق، كتاب الصلاة)
    ترجمہ: حضرت علیؓ نے ایک موذن کو عشا کی نماز کے لیے تثویب کرتے دیکھا اور فرمایا: ’’اس بدعتی کو مسجد سے نکال دو‘‘، اور حضرت ابن عمرؓ سے بھی ایسی روایت آئی ہے

  2. #2
    MTARIQ274's Avatar
    MTARIQ274 is offline Senior Member+
    Last Online
    8th March 2022 @ 09:25 PM
    Join Date
    13 Apr 2014
    Location
    Layyah Punjab
    Age
    28
    Gender
    Male
    Posts
    269
    Threads
    43
    Credits
    436
    Thanked
    13

    Default

    To is ka matlab ya howa k Buffoles ka ghost (meat) khana, animals ko injection laga kr dgood nikalna , Ice(biraf) ka pani drink karna, Quran e Pak paish zair zabir wala pardha, loud speaker ma Azan pardha.etc Badet hy q k ya kam or amal Muhammad(SAAW) ny or Sahbah karaam (R.A) na ni kea
    #ARE #You #Agree

  3. #3
    engr_jawed is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd October 2022 @ 03:16 PM
    Join Date
    20 Apr 2009
    Posts
    47
    Threads
    45
    Credits
    967
    Thanked
    0

    Default

    اس مضمون کی دوسری قسط میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ یہاں پھر پیش خدمت ہے۔
    درخواست ہے اس مضمون کی ساری قسطوں کو پڑھیں ان شاءاللہ بدعت کے موضوع سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

    ---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    بدعت کی تعریف سے پہلے یہ چند اصولی باتیں بھی جاننا ضروری ہے۔ ان باتوں کو جان لینے کے بعد بدعت کے مسئلے میں صحیح بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
    1) بدعت سے مراد بدعت شرعی ہے نہ کہ بدعت کا لفظی مفہوم۔
    ‏پچھلی قسط میں حدیث عرباض میں رسول اللہ ﷺنے اپنے اسوہ کا تقابل بدعت سے کیا ہے یعنی بدعت کا لفظ سنت کے مقابل ہے۔ جو چیز سنت ہے وہ بدعت نہیں ہوسکتی اور جو چیز بدعت ہو وہ سنت نہیں ہوسکتی۔ سنت کے دائرے میں ہر وہ چیز شامل ہے جن پر ان تین زمانوں میں جن کے خیر ہونے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اطلاع دی بغیر کسی روک ٹوک کے مسلمانوں کا عمل درآمد رہا۔
    2) بدعت کا موضوع تعبدی امور (عبادت والے کام) ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو نیکی سمجھ کر کیے جاتے ہیں اور انسان کو اس پر اجر کی امید ہوتی ہے۔ ان کے مختلف درجات ہیں جیسے فرض، واجب، سنت اور مستحب وغیرہ۔ اعمال کے یہ سب درجے شریعت مقرر کرتی ہے۔
    یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں سب عبادات توقیفی (ت و ق ی ف ی) ہیں یعنی ان کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ملتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی عمل گھڑنا اور نیکی سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے تمام نام، جن کا پڑھنا نیکی ہے، توقیفی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ثابت ہیں۔ لیکن کوئی شخص اپنی طرف سے اللہ کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو یوں بھی کہتے ہیں کہ تعبدی امور میں نقل موجود ہونا ضروری ہے۔ تعبدی امور طاعات اور بدعات میں تقسیم ہیں۔
    3) عادات (دنیاوی امور) بدعت کا موضوع نہیں ہیں۔ عادات و معاملات (دنیاوی امور) انسان خود ترتیب دیتے ہیں۔ یہ انسانوں کے اپنے ماحول اور تجربات سے بنتے ہیں۔ اسی لیے ہر ملک و علاقے میں یہ مختلف ہوتے ہیں(حاشیہ: [1])۔ دنیاوی امور میں نظر ضرورت پر ہوتی ہے۔ یہ امور جائز اور ناجائز میں تقسیم ہیں۔ ان میں اصل اباحت ہے، یعنی جائز ہیں جب تک شریعت سے منع ثابت نہ ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    حدیث
    انتم اعلم بامور دنیاکم
    ترجمہ: تم اپنے دنیا کے امور بہتر جانتے ہو
    4) بدعت کا تعلق مسائل سے ہے ذرائع سے نہیں۔ اصل چیز مسئلہ ہے نہ کہ ذریعہ۔ وقت و حالات کے تحت ذرائع بدل سکتے ہیں، مثلا:
    *صاحب استطاعت پر حج فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اونٹوں کے ذریعے مکہ مکرمہ پہنچا جاتا تھا۔ ہمارے دور میں مکہ مکرمہ پہنچنے کے دیگر ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ اصل چیز مکہ مکرمہ پہنچنا ہے نہ کہ ذریعہ۔
    *قرآن کریم صحیح پڑھنا دین کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قرآن کے الفاظ پر اعراب (زیر، زبر پیش وغیرہ) لگانا مسائل میں سے نہیں ہے ذرائع میں سے ہے۔
    * اسی طرح دین کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دینی مدارس کا قیام ذرائع میں سے ہے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
    مسائل اور ذرائع کے اس فرق کو سامنے رکھیں تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ:
    * مسجدوں میں گھڑی پنکھے وغیرہ لگانا ایک ضرورت ہے دین نہیں۔ یہ ذرائع ہیں مسائل نہیں۔
    * وقت کے قومی ملی اور دینی تقاضوں کے لیے مجالس و اجتماعات بھی ذرائع ہیں خود دین نہیں۔
    * دنیاوی کام اور نئی نئی ایجادات سب اس سے نکل گئیں اس لیے کہ یہ بھی دین نہیں۔
    اوپر بیان کیے گئے پانچ امور کو سامنے رکھ کر کسی چیز کے شرعی بدعت ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور جو چیز شرعی بدعت ثابت ہوگئی اس سے بچنا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ دین میں اضافہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

  4. #4
    MTARIQ274's Avatar
    MTARIQ274 is offline Senior Member+
    Last Online
    8th March 2022 @ 09:25 PM
    Join Date
    13 Apr 2014
    Location
    Layyah Punjab
    Age
    28
    Gender
    Male
    Posts
    269
    Threads
    43
    Credits
    436
    Thanked
    13

    Default

    Ur Right

Similar Threads

  1. Replies: 0
    Last Post: 19th July 2017, 12:46 PM
  2. Replies: 2
    Last Post: 18th July 2017, 12:58 PM
  3. Replies: 2
    Last Post: 6th March 2016, 01:43 PM
  4. Replies: 3
    Last Post: 16th October 2009, 05:18 AM
  5. Replies: 9
    Last Post: 7th June 2009, 08:32 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •