تمہید
مسئلہ علم غیب کو سمجھنے چند باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے جس کے بعد اس مسئلے کو سمجھنے میں کسی طرح کی پیچیدگی باقی نہیں رہتی۔ آئیے سب سے پہلے ان بنیادی باتوں کو جان لیتے ہیں اس کے بعد اس مسئلے کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔
علم حاصل کرنے کے مختلف ذرائع
علم حاصل کرنے کے مختلف ذرائع یا واسطے ہیں۔ جیسے حواس یعنی دیکھنے کی حس، سننے کی حس، سونگھنے کی حس، چکھنے کی حس، چھونے کی حس۔ ان کے ذریعے انسان کو ظاہری چیزوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا ایک اور ذریعہ انسان کی ذہنی، عقلی و فکری صلاحیتیں ہیں۔ جیسے کسی کی ظاہری حالت کو دیکھ کر اس کی قلبی حالت کا اندازہ کرلینا۔ یہ ہمارے پانچ ظاہری حواس سے باہر کی چیز ہے۔ اس کا بڑا تعلق انسان کی ذہنی صلاحیت سے ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا اور ایک ذریعہ استدلال ہے۔ اس کی مثال چاند گرہن اور سورج گرہن کے حسابات ہیں۔ اتنا اور جان لیجیے کہ علم حاصل کرنے کے یہ ذرائع اسباب، وسائل اور واسطوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہر انسان کو یہ صلاحیتیں کم و زیادہ حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ انبیا علیہم السلام اور اولیائے کرام میں ذہنی و فکری صلاحیتیں عام انسانوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ۔
ترجمہ: مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اسی لیے وہ بہت سے امور جن کو کرامت کہہ دیا جاتا ہے دراصل ان کا تعلق اس گہری فراست سے ہوتا جو ان حضرات کو عطا کی جاتی ہے۔
علم کے ذرائع سے آگہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تمام علوم جن کی بنیاد پر کچھ پوشیدہ باتوں کا پتہ لگا لیا جاتا ہے وہ غیب قطعی نہیں کیونکہ یہ تمام علوم واسطوں اور ذریعوں کے محتاج ہیں۔ مثلا الٹراساؤنڈ سے بچے کی جنس بتا دینا غیب نہیں کیونکہ اس کا انحصار آلات پر ہے۔
علم الغیب کی تعریف
علم حاصل کرنے کے ذرائع جان لینے بعد یہ سمجھ لیجیے کہ علم غیب وہ ہے جو ظاہری حواس، ذہنی صلاحیتوں اور استدلال سے مخفی ہو۔ یعنی نہ ظاہری حواس، نہ ذہنی و فکری صلاحیتیں، اور نہ ہی استدلال کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تمام کے تمام ذریعوں اور واسطوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ ذرائع علم غیب کے لیے ناکافی ہیں۔ مثلا جنت و جہنم کے احوال کسی طور بھی اوپر بیان کیے گئے ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ علم الغیب کا یہ امتیازی وصف اگر کسی پر صادق آتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور بس۔ وہی ایک ذات ایسی ہے جو وسائل اور واسطوں سے بالا اور بلند ہے۔ وہ نہ حواس کا محتاج ہے، نہ فکری، ذہنی صلاحیتوں کا اور نہ ہی اس کو کسی استدلال کی ضرورت ہے۔ بلکہ وہ بغیر ان تمام ذریعوں کے ذرہ ذرہ ، پتہ پتہ اور قطرہ قطرہ سے خود بخود ہر وقت اور ہر دم آگاہ ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو یہ وصف کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ کسی کے متعلق ایسا عقیدہ شرک ہے۔
اس مسئلہ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے دو بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ بنیادی باتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا علم
اللہ تعالیٰ کے علم بارے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا اپنی صفت علم کے بارے میں کہیں علیم فرمایا ہے اور کہیں عالم الغیب والشہادۃ فرمایا ہے جس کا مفہوم یوں بیان کیا جاتا ہے: تمام ظاہری و باطنی، لا محدود اور لامتناہی صفت قدیم کے ساتھ (دائماًابداً) بالذات احاطہ کرنے والی ذات اقدس۔ اس کی تفصیل یوں ہے:
· صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات تمام علوم کا احاطہ کرنے والی یعنی جاننے والی ہے ۔
· تمام ظاہری و باطنی علوم ، لا محدود اور لامتناہی، یعنی اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے نہ نہایت،
· اس کا علم ہمیشہ ہمیشہ سے ہے یعنی ایسا نہیں کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی، اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے،
· بالذات یعنی اس کا یہ علم اس کا ذاتی ہے کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے،
ان معنوں میں علم؛ اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے جس میں اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے بھی اس طرح علم ماننا شرک و کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آیت 1
و عندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو (الانعام: 59)
ترجمہ: اور اللہ ہی کے پاس ہیں خزانے تمام مخفی اشیاء کے۔ ان کو کوئی نہیں جانتا سوائے اس (اللہ تعالیٰ) کے۔
رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے:
آیت 2
قل لا یعلم من فی السمٰوات و الارض الغیب الا اللہ و ما یشعرون ایان یبعثون (نمل 65)
ترجمہ: آپ فرما دیں کہ آسمان و زمین میں جتنے لوگ ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے انہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
آیت 3
ان اللہ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث و یعلم ما فی الارحام و ما تدری نفس ماذا تکسب غدا و ما تدری نفس بای ارض تموت ان اللٰہ علیم خبیر (لقمان: 34)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی مینہ برساتا ہے وہی پیٹ کے بچے کو جانتا ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا کمائے گا اور نہ یہ کہ کس زمین پر اس کی موت آئے گی۔ بے شک اللہ ہی جانے والا خبردار ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علم کے بارے میں کہیں علیم فرمایا ہے اور کہیں عالم الغیب والشہادۃ۔
انبیا علیہم السلام کا علم
انبیاء علیہم السلام جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں علم کے باب میں ان کا خصوصی مقام ہے۔ انبیا علیہم السلام کے علم بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان خاص بندوں کو بے شمار علوم عطا کیے ہے جن کا احاطہ کرنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر خاتم الانبیا ﷺ کے بحر علم کے کنارے تک پہنچنا دیگر انبیائے کرامؑ کے لیے بھی ممکن نہیں ۔ لیکن ان کا علم،
· لامتناہی (لامحدود) نہیں بلکہ محدود ہے۔
· اللہ کی عطا سے ہے، بالذات (خود بخود) نہیں۔
· ان کا علم اللہ کی مرضی پر موقوف ہے۔ بغیر مشیت (مرضی) کے نہیں یعنی یہ نہیں کہ جب چاہا جان لیا بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا ان کو علم حاصل ہوا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
آیت 4
عالم الغیب فلا یظہر علٰی غیبہ احد ا الا من ارتضٰی من رسول (الجن: 26)
ترجمہ: وہی غیب کا جاننے والا ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں جس رسول کو پسند فرمائے (اس کو اطلاع دیتا ہے)۔
اور اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
آیت 5
وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولٰکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء۔ (آل عمران: 179 )
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ غیبی امو ر پر تم کو مطلع نہیں کرتے لیکن ہاں جس کو وہ خود چاہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان کو وہ منتخب فرما لیتے ہیں۔
معراج کے واقعہ کے سلسلے میں آتا ہے:
حدیث 1
عن جابر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لما كذبتني قريش قمت في الحجر فجلى الله لي بيت المقدس فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر اليه
ترجمہ: (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں قریش نے) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے
یعنی اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔
· ان کا یہ وصف حدوثاً ہے قدیماً نہیں، یعنی ہمیشہ سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہے۔
لیکن اس علم میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔