Results 1 to 2 of 2

Thread: علم الغیب کو سمجھیے-2

  1. #1
    engr_jawed is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd October 2022 @ 03:16 PM
    Join Date
    20 Apr 2009
    Posts
    47
    Threads
    45
    Credits
    967
    Thanked
    0

    Default علم الغیب کو سمجھیے-2

    انبیاء علیہم السلام غیب پر مطلع ہیں؟
    البتہ ایک بات غور طلب ہے کہ اوپر جو چار آیتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے ‏آیت 1 اور ‏آیت 2 سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کی بات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب کہ ‏آیت 4 اور ‏آیت 5 سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرامؑ غیب پر مطلع ہیں۔
    اب یہ احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
    حدیث 2
    قال رسول اللہ ﷺ لیردن علی اقوام اعرفھم و یعرفوننی ثم یحال بینی و بینھم فا قول انھم منی فیقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک فاقول سحقا سحقا لمن غیر بعدی۔ (مشکٰوۃ صفحہ۴۸۸-۴۸۷)
    ترجمہ: میری طرف ایسے لوگ آئیں گے جن کو میں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے پھر میرے اور ان کے درمیان حجاب حائل ہو جائے گا۔ میں کہوں گا یہ میری امت کے لوگ ہیں ۔ کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں پیدا کیں ، میں کہوں گا کہ (مجھ سے) دور ہو جائے دور ہو جائے وہ شخص جس نے میرے بعد دین میں تبدیلی کی۔
    حدیث 3
    عن عمر رضی اللہ عنہ قال قام فینا رسول اللہ ﷺ مقاما فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منا زلھم و اھل النار منازلھم حفظ ذالک من حفظ ونسیہ من نسیہ۔ (صحیح البخاری )
    ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مقام میں رسول اللہ ﷺ ہم میں کھڑے ہوئے اور ہم کو ابتدائے خلق سے خبر دی حتی کہ اہل جنت کے اپنے منازل میں داخل ہونے اور اہل نار کے اپنے منازل میں داخل ہونے تک خبر دی۔ جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔
    ‏حدیث 2 میں آپ ﷺ کے غیب جاننے کی نفی ہے جب کہ ‏حدیث 3 سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ ان غیوب کو جانتے تھے یعنی آپ ﷺ کا غیب جاننا ثابت ہوتا ہے۔ اور بھی واقعات ہیں جن سے آپ ﷺ کے غیب پر مطلع ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا جنگ خندق کے دوران جب آپ ﷺ نے چٹان توڑی تب آپ ﷺ نے شام اور دوسرے ممالک کے فتح ہونے کی خبر دی جو بعد میں پوری ہوئی۔
    اسی طرح واقعات انبیاؑ بھی دو طرح کے ہیں جن میں بعض واقعات ایسے ہیں جن سے انبیا کے غیب جاننے کی نفی ہوتی ہے۔ مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ملائکہ نوجوانوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے جانور ذبح کر کے کھانا تیار کر کے لائے اور ان کے نہ کھانے پر خوف زدہ بھی ہوئے بعد میں ان کے بتانے سے معلوم ہوا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ یا حضرت یوسف علیہ السلام جب کنویں میں تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم نہیں تھا۔ لیکن جب مصر سے بھائی قمیص یوسف لے کر روانہ ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
    خلاصہ یہ ہے کہ بعض آیتوں میں علم غیب کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا بیان کیا گیا ہے اور غیر اللہ سے نفی کی گئی ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں آپ ﷺ کے غیوب پر مطلع ہونے کا بیان ہے اور بعض میں اس کی نفی ہے۔ اہل علم نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ لیکن ایک بار پھر اس فرق کو ذہن نشین ہونا ضروری ہے جو اس مضمون کے شروع میں بیان کیا گیا ہے۔ سہولت کے لیے دوبارہ پیش خدمت ہے۔
    · اللہ کا علم اس کی صفت ہے، ہمیشہ سے ہے، ذاتی ہے، لامتناہی ہے (کوئی انتہا نہیں )،
    اس ذات جل جلالہ کے علاوہ جس کے پاس جو علم ہے،
    · وہ اللہ کی عطا ہے ، اس کی مشیت (مرضی) کے تحت ہے یعنی کسی کے لیے ممکن نہیں کہ خود جان لے، متناہی ہے۔ پہلے نہیں تھا بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔
    اگر یہ فرق سامنے رہیں تو وہ آیات یا احادیث جن میں علم الغیب اللہ خاص تعالیٰ کے بتایا گیاہے ان کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جن آیات و احادیث میں علم الغیب خاص اللہ کے لیے بتایا ہے تو اس سے مراد اللہ رب العزت کا ذاتی، لامتناہی، ہمیشہ ہمیشہ ، اور ہر چیز کو محیط علم ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا اس صفت میں کوئی بھی شریک نہیں۔
    اور جن آیات میں انبیا علیہم السلام اور آپ ﷺ کے لیے غیب کا ثبوت ہے اس سے مراد اللہ کی مرضی کے تحت، اس کا بخشا ہوا، محدود علم مراد ہے۔ البتہ انبیائے کرام کے لیے یہ عطا و اطلاع ایسی ہے کہ مخلوق میں اس کا کوئی برابر نہیں۔
    اس کو مزید سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کریں کہ وہ آیتیں جو یہاں پیش کی گئیں ہیں اور قرآن پاک میں دیگر مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں اپنی صفت علم کا ذکر کیا ہے وہاں لفظ علم یا اس سے بنے ہوئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھیے ‏آیت 1 وہاں لفظ لایعلمھا آیا ہے یا ‏آیت 3 وہاں لفظ علم آیا ہے۔ نیز جہاں جہاں مخلوق سے غیب کی نفی کا ذکر ہے (کہ مخلوق کے پاس علم غیب نہیں ہے) وہاں بھی لفظ علم یا اس سے بنے ہوئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلًا یہ آیت دیکھیے جس میں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے لیے علم غیب کی نفی بیان کی گئی ہے۔​
    یعنی اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔
    قل لا اقول لکم عندی خزآئن اللہ و لا اعلم الغیب (الانعام:50)
    ترجمہ: (اے نبیؐ) کہہ دیجیے، میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔
    آیت 6
    قل لا املک لنفسی نفعا و لا ضرا ا لا ماشاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لا استکثرت من الخیر و ما مسنی السوء ان انا الا نذیر و بشیر لقوم یؤمنون۔ (سورہ اعراف ع ۲۳)
    ترجمہ: (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، اور اگرمیں غیب کی باتیں جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیا کرتا اور کوئی مضرت ہی مجھ کو واقع نہ ہوتی میں تو محض نذیر و بشیر ہوں اس قوم کے لیے جو ایمان رکھتی ہے۔
    یہاں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے آپ ﷺ کے غیب نہ جاننے کا اقرار بغیر لفظ علم کے آیا ہے۔ یعنی، اگر میں علم الغیب جانتا نہیں فرمایا بلکہ کہلوایا گیا : ولو کنت اعلم الغیب (اگر میں غیب جانتا)۔
    البتہ جہاں مخلوق کی غیب سے آگہی کا ذکر ہے وہاں لفظ علم کے بجائے اطلاع و اظہار کے الفاظ استعمال ہوا ہے۔ اس مسئلے میں یہ انتہائی اہم نکتہ ہے۔ اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے لیے علم غیب کی نفی فرمائی ہے اور اظہار علم اور اطلاع علم کا اثبات (ہونا) فرمایا ہے۔
    اس بات پر بھی غور کیجیے کہ قرآن مجید میں عالم الغیب کی اصطلاح کا استعمال صرف ایک اللہ رب العزت ہی کے لیے فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ لقب اس ذات جل و علا کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے اس کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی عالم الغیب تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ظاہر و باہر چیزوں کے جاننے کی کسی سے نفی نہیں فرمائی یعنی یہ کہیں نہیں آیاکہ کوئی عالم الشہادۃ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اس بات کا بار بار اظہار فرمایا گیا ہے کہ کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔
    اسی طرح احادیث میں بھی ہے۔ پہلی حدیث آپ ﷺ کے غیب پر آگاہ ہونے کی دلیل ہے جب کہ دوسری حدیث سے اس سے عدم آگہی کا اظہار ہوتا ہے۔ اوپر انبیائے کرام کے علم کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اگر اس کو سامنے رکھا جائے تو ان دونوں حدیثوں میں جو ظاہری تعارض ہے وہ دور ہو جاتا ہے۔ جس غیب کا آپ ﷺ کی لیے ثبوت ہے اس سے محدود غیب مراد ہے لامتناہی غیب و علوم مراد نہیں۔ بعض غیب و علوم مراد ہیں اور کل غیب و علوم نہیں، وہ غیوب مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا اور اطلاع کے طور پر ہیں۔ یہ عطا و اطلاع حق تعا لیٰ کی مشیت (مرضی) پر ہے۔ نیز یہ عطا و اطلاع حدوثاً ہے قدیماً نہیں۔ نیز وہی علوم مراد ہیں جو آپ ﷺ کی شان کے لائق ہوں۔ قرآن پاک میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق ارشاد ہے:
    وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ) یس69
    ترجمہ: اور ہم نے نہیں سکھایا ان کو شعر کہنا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے۔
    ما کان و ما یکون کا مطلب
    مسئلہ علم الغیب میں بنیادی بحث جملہ ما کان و ما یکون کے متعلق ہے۔ ما کان کا معنی ہے جو ماضی میں واقع ہو چکا اور ما یکون کے معنی جو مستقبل میں واقع ہو گا یعنی ماضی و مستقبل کا علم۔ یہ جملہ بظاہر حدیث عمرؓ (‏حدیث 1) کا عنوان ہے جس میں آپ ﷺ نے ابتدائے کائنات سے لے کر جنت دوزخ میں داخلے تک کی خبر دی۔ البتہ بعض اوقات ما کان و ما یکون کا استعمال کل کے معنی میں کیا جاتا ہے۔ ما کان و ما یکون کے اس مفہوم کو سامنے رکھا جائے تو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ رسول ﷺ تمام علوم غیب کو جانتے تھے۔ درحقیقت یہ غلط فہمی سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ جو حضرات اس کو کل کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ان کی مراد بھی محدود غیب ہی ہے۔ مشہور بریلوی عالم علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ نے مقالات کاظمی ج 2 ص 17 میں لکھا ہے:
    ’’یاد رکھیئے! جب آپ ہمارے کلام میں حضور ﷺ کے علم اقدس کے متعلق لفظ ’’کل ‘‘ دیکھیں تو اس سے کل غیر متناہی (لامحدود) نہ سمجھیں بلکہ کل مخلوقات (جو متناہی ہے) اور اس کے علاوہ معرفت ذات و صفات کا علم کہ وہ بھی بالفعل متناہی ہے ہماری مراد ہو گا۔ ورنہ علم الہٰی کی بہ نسبت حضور ﷺ کے علم کو کل نہیں کہتے۔ کیونکہ علم الہٰی محیط الکل اور غیر متناہی ہے۔‘‘
    اعلیحضرت احمد رضا خان بریلویؒ کی یہ عبارت ملاحظہ ہو:
    ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے جمیع (تمام) معلومات الہیہ کا احاطہ کر لیا کہ یہ تو مخلوق کے لیے محال ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے اور عنقریب ہم تم سے بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو سکھانا بذریعہ قرآن عظیم ہوا اور قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے اترا اور ہر وقت نہیں اترتا تھا تو اوقات اورمعلومات دونوں میں بعض ہونا صادق ہوا۔‘‘
    ( الدولۃ المکیہ،صفحہ ۷۲ سے ۷۴ تک، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
    یعنی قرآن پاک آپ ﷺ پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوا۔جو نازل ہوا علم میں آگیا اور جو نازل نہیں ہوا وہ غیب میں رہا۔
    اعلیحضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے حوالے سے یہ عبارت انوار رضا میں موجود ہے:
    ’’علم غیب بالذات اللہ عز و جل کے لیے خاص ہے کفار اپنے معبودان باطل وغیرہم کے لیے مانتے تھے لہٰذا مخلوق کو عالم الغیب کہنا مکروہ اور یوں کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے امور غیب پر انہیں اطلاع ہے۔‘‘ (انوار رضا، ص 56)
    خلاصہ
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم غیب اللہ رب العزت ہی کو ہے اس میں اس کوئی شریک نہیں اور علم الغیب کلی یا ما کان و ما یکون بھی صرف اسی کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے۔ لیکن اس نے اپنے رسول ﷺ اور دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کو وحی وغیرہ کے ذریعہ غیب کی ہزاروں، لاکھوں خبریں دی ہیں اور اولیائے کرام کو بھی کشف و الہام وغیرہ کے ذریعے ایسی بہت سی چیزوں کی خبر ہو جاتی ہے۔ لیکن نہ یہ علم الغیب ہے اور نہ اس کی وجہ سے کسی کو عالم الغیب کہا جاسکتا ہے۔
    گزارش
    آخر میں اتنی گزارش ہے کہ مقام رسول ﷺ ہماری آپ کی سوچ و فہم سے بالاتر ہے۔ آپ ﷺ کے اوصاف پر بحث و مباحثہ کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ مثلا علم رسول ﷺ کو لیجیے۔ آپ ﷺ کے علم کی کیفیت و کمیت کسی کی سمجھ سے بالا ہے۔ اب جو اس لاعلمی کے باوجود اس پر رائے زنی کرے گا وہ دو طرح سے خطرے میں ہے۔ وہ یا تو علم رسول ﷺ کی وسعت کا اس طرح اظہار کرے گا کہ علم الہی سے ملا بیٹھے گا۔ اور اس کا رد کرنے والا اس طرح رد کر بیٹھے گا کہ شان رسول ﷺ کو گھٹا بیٹھے گا۔ دونوں ہی باتیں خطرہ ایمان ہے۔ اس لیے ایسی کسی بحث میں حصہ لینا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس لیے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے ایمان کو بچائیں اور ایسے لوگوں سے دور بھاگیں جو اس طرح کی بحثوں کو دین کا معیار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنا مسلک بس یہ رکھیں: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ یہ اوصاف محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے لیے، مختصر اور جامع ترین بات ہے! واللہ تعالیٰ اعلم۔
    [/FONT][/SIZE][/RIGHT]

  2. #2
    Don22 is offline Senior Member+
    Last Online
    19th July 2022 @ 09:07 PM
    Join Date
    28 Aug 2016
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    358
    Threads
    17
    Credits
    2,158
    Thanked
    23

    Default

    Nice Muhammad E Arabi SAWW ko jo wahhi ati thi wo hi Aap bolty thay Gaib ka ilam Siraf ALLAH kay pass ha.

Similar Threads

  1. علم الغیب کو سمجھیے-1
    By engr_jawed in forum Islam
    Replies: 0
    Last Post: 7th August 2017, 11:08 AM
  2. Replies: 5
    Last Post: 2nd May 2017, 11:54 PM
  3. Replies: 12
    Last Post: 7th June 2011, 12:02 AM
  4. Replies: 21
    Last Post: 17th March 2010, 10:37 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •