Results 1 to 2 of 2

Thread: آزاد لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟

  1. #1
    i love sahabah's Avatar
    i love sahabah is offline Advance Member
    Last Online
    27th December 2022 @ 08:28 PM
    Join Date
    14 Jul 2008
    Location
    Chakwal
    Posts
    982
    Threads
    499
    Credits
    4,100
    Thanked
    409

    Default آزاد لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟

    ہر سال کی طرح اس سال بھی پورے ملک میں جشن آزادی منایا جارہا ہے۔ حسبِ سابق لوگ گھروں پر اور حکومت نمایاں مقامات پر چراغاں کر رہی ہے ۔ کسی نے اپنے گھر ‘ دکان یا گاڑی پر پرچم لہرانے کا تکلف بھی گوارا کیا ۔ حکمران چند رٹے رٹائے جملوں کے ذریعے قوم کو آزادی کی مبارک باد بھی پیش کریں گے اور اکثر اخبارات اس موقع پر اپنے خصوصی ایڈیشن شائع کریں گے ۔
    اکثر لوگ ۱۴ ؍ اگست کے دن شکوہ کناں ہی نظر آتے ہیں کہ کیسی آزادی اور کونسی آزادی ؟ کس بات کی خوشی اور کس بات کا جشن ؟ کہاں کی تقریبات اور کس چیز کی مسرت ؟ ہماری خوشیوں کو تو حکمرانوں کی خرمستیاں کھا گئی ہیں اور مہنگائی نے ہمیں سب کچھ بھلا دیا ہے جی ہاں ! امریکہ جب چاہتا ہے ہماری سر زمین پر ڈرون حملہ کر دیتا ہے یا کسی شہری علاقے میں خفیہ آپریشن کر ڈالتا ہے ۔
    انگریز ‘ جس سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی ‘ آج اُسی کا قانون اور اُسی کے ذہنی غلام ہم پر مسلط ہیں ۔اُسی کی رضا مندی اور خوشنودی ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے ۔ کبھی ہم سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک تھے ‘ پھر پنجابی ‘ پٹھان ‘ سندھی اور بلوچ ہوئے ۔ اب پوٹھوہاری ‘ سرائیکی ‘ ہزاروی اور نجانے کیاکیا بن گئے ہیں ۔ وہ نسبتیں جو اللہ تعالیٰ نے صرف باہمی تعارف کیلئے بناتئی تھیں ‘ اب وہ وہی باہمی لڑائی جھگڑوں کا ذریعہ بن گئیں ۔
    پھر آپ نے دنیا میں کوئی ایسا عقلمند نہیں دیکھا ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہو اور پائوں میں بیڑی ہو لیکن وہ یہ کہتا پھرے کہ میں تو آزاد ہوں ۔ ہم تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،یہ تعلق اور رشتہ ہمیں اسلام نے عطا فرمایا ہے قرآن و حدیث نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے پھر جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی درجنوں مسلمان بہنیں کفار کے پنجۂ ستم میں سسک سسک کر جی رہی ہیں ‘ وہ روز جیتی اور روز مرتی ہوں ۔ ہمارے کتنے ہی قیمتی بھائی گوانٹا ناموبے سے ابو غریب تک اور شبر غان سے دنیا کے بد نام عقوبت خانوں تک اپنی زندگیاں بتا رہے ہوں ۔ ایسے میں آزادی کا دعویٰ کچھ عجیب ہی نہیں مضحکہ خیز بھی لگتا ہے۔
    پھر اگر مقاصدِ آزادی کے لحاظ سے دیکھیں تو معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے ۔ سولہ لاکھ شہداء نے اس ارضِ وطن کے حصول کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ کتنے ایسے تھے جنہیں گھروں سمیت زندہ جلا دیا گیا ۔ کتنے ایسے تھے جنہیں ریل گاڑیوں کے نیچے زندہ کچل کر مار دیا گیا ۔ کتنی ایسی مائیں بہنیں تھیں جو اپنی عزت بچانے کیلئے کنووں میں کود گئیں ‘ چھتوں سے چھلانگیں لگا دیں اور کتنے ایسے معصوم بچے تھے جو بلکتے بلکتے ابدی نیند سو گئے ۔
    کیا یہ سب قربانیاں صرف اس لیے تھیں کہ یہاں اسلام پابند اور کفر آزاد ہو گا ۔ یہاں مالدار اپنی دولت کے بل بوتے پر غریبوں کی پگڑیاں اچھالتے اور عزتیں لوٹتے پھریں گے ۔ یہاں حکومت اور اقتدار چند خاندانوں کی میراث بن جائے گا ۔ یہاں اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جائے گا ۔ یہاں کے تعلیمی ادارے ایسی پود جنم دیں گے جو امت مسلمہ کی ماں ‘ بہن ‘ بیٹی کا تحفظ تو کیا کریں گے ‘ ان کے ہاتھوں تو ان کے اپنے گلی محلے کی ماں ‘ بہن ‘ بیٹی ہی محفوظ نہیں ہو گی ۔
    ہماری نئی نسل تو اقبال ؒ کے فریب خوردہ شاہین کی طرح ہے ‘ جس کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ انگریز اور ہندئو ‘ مسلمانوں کے کیسے ازلی دشمن ہیں اور ہمیں لاکھوں جانیں قربان کر کے ان سے آزادی لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ وہ کیا جانیں کہ ۱۸۵۷ء کے معرکے کیا تھے اور سلطان ٹیپو شہیدؒ ، نواب سراج الدولہ اور حضرت امیر المومنین سید احمد شہید ؒ کیوں جہاد ِ آزادی کی خاطر اپنی جانوں سے گزر گئے ۔ انہیں کیا معلوم کہ تحریکِ خلافت ‘ ترکِ موالات اور تحریک ِ ریشمی رومال ہماری آزادی کے کیسے سنگِ میل تھے ؟ یہ بے چارے تو اُن بزرگوں کے نام تک نہیں جانتے جنہوں نے اُس وقت انگریز استعمار سے ٹکرلی جب اُس کی سلطنت اتنی طویل و عریض تھی کہ اُس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور پھر اُس کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔
    انہیں تو اگر پتہ ہے تو صرف اتنا کہ ۱۹۴۰ ء میں قرار دادِ پاکستان کا اعلان ہوا اور پھر سات سال کے مختصر عرصے میں مذکرات کے ذریعے ۱۴ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان وجود میں آگیا ۔ اتنی آسانی سے تو کسی کو حلوے کی پلیٹ بھی نہیں ملتی جتنی آسانی سے انگریز جیسی شاطر اور ظالم قوم سے آزادی ملنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔
    افسوس کہ جدید تعلیم نے مسلمان بچوں سے اُن کی تاریخ اور اُن کے ہیرو بھی چھین لیے ہیں اور اب اُن کے سامنے کسی انگریز کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں یا کسی کھلاڑی اور فنکار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ مسلمان خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ سعیدہ وارثی جیسی مغرب زدہ عورتیں اُن کیلئے نمونۂ عمل ہیں ۔ کاش ہماری قوم کے سامنے اُن کے اسلاف کے روشن تذکرے لائے جاتے تو اُنہیں اتنا تو پتہ چل جاتا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور آزاد لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟
    جب حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر کے قلعہ کا محاصرہ کیا تو قبطی بادشاہ مقوقس نے قلعہ سے نکل کر اسی جزیرے کے قلعے میں پناہ لی تھی ، اور اُس تک پہنچنے کے لیے دریائے نیل پر جو پُل بنا ہوا تھا ، وہ توڑدیا تھا ، تاکہ مسلمان دریا عبور کر کے جزیرہ تک نہ پہنچ سکیں ‘ دوسری طرف اُس نے قیصر ِ روم سے مدد طلب کی تھی کی وہ مسلمانوں کے عقب سے اُن پر حملہ کر دے ۔
    ان حالات میں مقوقس نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کے پاس اپنے سفیروں کے ذریعے خط بھیجا کہ تم ایک طرف دریائے نیل اور دوسری طرف رومی فوجوں کے درمیان گِھر چکے ہو ‘ تمہاری تعداد بھی کم ہے اور اب تمہاری حیثیت ہمارے ہاتھوں میں قیدیوں کی سی ہے ، لہٰذا اگر خیریت چاہتے ہو تو صلح کی بات چیت کے لیے اپنے کچھ آدمی میرے پاس بھیج دو ۔
    جب حضرت عمرو بن العاص ؓ کے پاس یہ سفیر پہنچے تو انہوں نے فوراً کوئی جواب دینے کے بجائے انہیں دو دن دو رات اپنے پاس مہمان رکھا ، جب سفیروں کو دیر ہوئی تو مقوقس کو خطرہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ سفیروں کو قتل کرنا جائز نہ سمجھتے ہوں ‘ لیکن دو روز کے بعد سفیر حضرت عمرو بن عاص ؓ کا یہ پیغام لے کر پہنچ گئے کہ ہماری طرف اُنہیں تین باتوں کے علاوہ کوئی چوتھی بات قابلِ قبول نہ ہو گی ۔ ( یعنی اسلام ، جزیہ یا جنگ ) جو ہم پہلے بھی آپ کو بتا چکے ہیں ۔
    پیغام وصول کرنے کے بعد مقوقس نے سفیروں سے پوچھا کہ تم نے ان مسلمانوں کو کیسے پایا ؟ اس کے جواب میں سفیروں نے کہا :
    ’’ ہم نے ایک ایسی قوم دیکھی ہے جس کے ہر فرد کو موت زندگی سے زیادہ محبوب ہے ‘ وہ لوگ تو اضع اور انکسار کو ٹھاٹ باٹھ سے زیادہ پسند کرتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کے دل میں … دنیا کی طرف رغبت یا اس کی حرص نہیں ہے ‘ وہ زمین پر بیٹھتے ہیں اور گھٹنوں کے بَل بیٹھ کر کھاتے ہیں ، اُن کا امیر اُن کے ایک عام آدمی کی طرح ہے ، ان کے درمیان اونچے اور نچلے درجے کے آدمی پہچانے نہیں جاتے ، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں آقا کون ہے اور غلام کون؟ جب نماز کا وقت آتا ہے تو ان میں سے کوئی پیچھے نہیں رہتا ، وہ اپنے اعضاء کو پانی سے دھوتے ہیں اور نماز بڑے خشوع سے پڑھتے ہیں ‘‘
    کہتے ہیں کہ مقوقس نے یہ سن کر کہہ دیا تھا کہ ’’ان لوگوں کے سامنے پہاڑ بھی آجائیں گے تو یہ انہیں ٹلا کر رہیں گے ، ان سے کوئی نہیں لڑ سکتا ۔‘‘ بالآخر باہمی پیغامات کے تبادلے کے بعد حضرت عمرو بن عاص ؓ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دس افراد کی ایک سفارت مقوقس کے پاس بھیجی ‘ مقوقس نے ان کو بھی روپے پیسے کا لالچ دینے کی کوشش کی ‘ اور ان کی معاشی تنگ حالی کے حوالے سے یہ یقین دلانا چاہا کہ اس کی پیشکش کو قبول کر کے مسلمان خوشحال ہو جائیں گے ‘ لیکن اس کے جواب میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے جو عجیب و غریب تقریر فرمائی وہ صحابہ کرام کے ایمان و یقین ، ان کے آہنی عزم و ثبات دنیا سے بے رغبتی ، آخرت کی فکر اور شوقِ شہادت کی بڑی اثر انگیز تصویر ہے ‘ اس تقریر کے کچھ حصے یہ ہیں :
    ’’اللہ کے دشمنوں سے ہماری لڑائی اس بنا پر نہیں کہ ہمیں دنیا کی رغبت ہے ، یا ہم زیادہ دنیا سمیٹنا چاہتے ہیں… ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے کسی شخص کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے پاس سونے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ، یا اس کی ملکیت میں ایک درہم کے سوا کچھ نہیں ، اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو دنیا کی زیادہ سے زیادہ جو مقداردرکار ہے ‘ وہ بس اتنا کھانا ہے جس سے وہ صبح و شام اپنی بھوک مٹا سکے ، اور ایک چادر ہے جسے لپیٹ سکے ، اگر ہم میں سے کسی کو اس سے زائد دنیا نہ ملے تو بھی اس کے لیے کافی ہے ، اور اگر اسے سونے کا کوئی ڈھیر مل بھی جائے تو وہ اسے اللہ کی طاعت ہی میں خرچ کرے گا… کیونکہ دنیا کی نعمتیں حقیقی نعمتیں نہیں ‘ اور نہ دنیا کی خوشحالی حقیقی خوشحالی ہے ، نعمتیں اور خوشحالی تو آخرت میں ہوں گی ، اسی بات کا ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے ، یہی بات ہمیں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سکھائی ہے ، اور ہمیں یہ نصیحت کی ہے کہ ہم دنیا کی اس سے زیادہ فکر میں نہ پڑیں کہ ہماری بھوک مٹ جائے اور ستر پوشی ہو جائے ، باقی ہماری اصل فکر اور دُھن اپنے رب کو راضی کرنے اور اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے کی ہونی چاہیے …
    ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص صبح و شام یہ دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے شہادت نصیب فرمائے اور اسے اپنے شہر ، اپنی زمین اور اپنے اہل و عیال کے پاس واپس نہ جانا پڑے ‘ ہم لوگ اپنے وطن میں جو کچھ چھوڑ کر آئے ہیں ‘ ہمیں اس کی فکر نہیں ‘ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اہل و عیال کو اپنے پروردگار کی امان میں دے کر آیا ہے ‘ ہماری فکر تو اپنے آگے پیش آنے والے حالات کے متعلق ہے ۔
    رہا آپ کا یہ کہنا کہ ہم اپنے معاشی حالات کے لحاظ سے تنگی اور شدت کی زندگی گزار رہے ہیں ‘ تو آپ یقین رکھیں کہ ہم اتنی وسعت اور فراخی میں ہی جس کے برابر کوئی وسعت نہیں ہو سکتی ، اگر ساری دنیا ہماری ملکیت میں آجائے تب بھی ہم اپنے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھنا چاہتے جتنا اس وقت ہمارے پاس ہے ۔
    لہٰذا اب آپ اپنے معاملے پر غور کر کے ہمیں بتادیجئے کہ ہماری پیش کی ہوئی تین باتوں میں سے کون سی بات آپ پسند کرتے ہیں ‘ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تین باتوں کے علاوہ کسی اور بات پر نہ کبھی راضی ہوں گے ‘ نہ اس کے سوا آپ کی کوئی بات قبول کریں گے ، بس آپ ان تین چیزوں میں سے کسی چیز کو اختیار کر لیجئے ‘ اور نا حق باتوں کی طمع چھوڑ دیجئے ، یہی میرے امیر کا حکم ہے ،اسی بات کا حکم اُنہیں ہمارے امیر المومنین (حضرت عمرؓ ) نے دیا ہے اور یہی وہ عہد ہے جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں عطا فرمایا تھا ‘‘
    اس کے بعد حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان تین باتوں کی تشریح فرمائی دینِ اسلام کا مفصل تعارف کرایا ، اور مسلمان ہونے کے نتائج واضح فرمائے۔ مقوقس حضرت عبادہ کی باتیں سننے کے بعد جزیہ کی طرف مائل ہونے لگا تھا ، لیکن اس کے ساتھیوں نے بات نہ مانی ۔ بالآخر جنگ ہوئی ، اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ۔ ( النجوم الزاہرۃ ۱؍۱۱تا ۱۵)
    ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری رہی سہی اور بچی کھچی آزادی محفوظ رہے اور ہم ان آزاد لوگوں کے نقشِ قدم پر چل کر نفس ‘ شیطان ‘ حب ِدنیا ‘ کفار اور کفریہ عادات و اطوار سب سے حقیقی آزادی حاصل کر سکیں ۔ آمین ثم آمین
    ٭…٭…٭


    مولانا محمد منصور احمد

  2. #2
    Join Date
    23 Jun 2007
    Location
    *~Fateh Jang~*
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    38,526
    Threads
    2402
    Credits
    28,617
    Thanked
    3764

    Default


    جزاک اللہ ۔ انتہائی فکر انگیز تحریر ۔ بیشک پاکستان اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے مسائل بھی موجود ہیں

    جب تک ہم سب اس نعمت کی قدر نہیں کریں گے تو حالات کیسے ٹھیک ہونگے؟؟ مجھ سمیت ہر کسی کو اپنی راہ اپنی ڈائریکشن مثبت رکھنی ہوگی تاکہ پاکستان کا بھلا ہو

    اصل میں لوگ غلط سمت سفر کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ صحیح جگہ پہنچیں گے ۔۔ صحیح سمت اسلام والی ہے اور صحیح سسٹم خلافت کا ہے ۔۔ مروجہ جمہوریت یا دیگر باطل نظاموں سے فلاح کا چانس نہیں ہے ۔۔

    جب عوام بہتر اور سمجھدار ہونگے تو شائد حکمران بھی ٹھیک ہو جائیں

Similar Threads

  1. Replies: 32
    Last Post: 13th February 2023, 10:57 AM
  2. Replies: 6
    Last Post: 12th April 2017, 06:55 PM
  3. Replies: 20
    Last Post: 23rd August 2016, 11:59 PM
  4. سب سے زیادہ مصیبتیں کن لوگوں پر آیں
    By amjadattari in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 9
    Last Post: 15th January 2014, 10:01 PM
  5. Replies: 13
    Last Post: 23rd January 2011, 08:02 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •