Results 1 to 7 of 7

Thread: غسل کی اقسام

  1. #1
    Join Date
    26 Mar 2010
    Location
    Lahore
    Gender
    Male
    Posts
    10,606
    Threads
    2401
    Credits
    107,740
    Thanked
    1656

    Default غسل کی اقسام

    Name:  488-AlSalam.gif
Views: 184
Size:  143.5 KB

    ڈئیر آئی ٹی ڈی ممبران
    آج ایک بہت ہی اہم موضوع پر تھریڈ بنا رہا ہوں۔ اس تھریڈ کا مقصد ان ممبران کو اگاہی فراہم کرنا ہے
    جن کو ابھی تک ان مسائل کے بارے میں اگاہی نہیں ہے۔
    کیوں کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنی آئتوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہوں اور اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔
    اکثر ممبران کو غسل کے بارے میں صحیح معلو مات نہیں ہوتیں اور وہ شرم کے مارے کسی سے پوچھتے بھی نہیں۔
    ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم رکن نماز ہے جو روزانہ پانچ مرتبہ ادا کرنی ہوتی ہے۔
    ہر عبادت کے لیے سب سے پہلی شرط طہارت ہے۔ اگر انسان کو پتہ ہی نہ ہو کہ وہ پاک صاف ہے کہ نہیں۔
    اور وہ اپنی عبادت میں مشغول رہے تو ایسی عبادت رائے گاہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
    تو آج میں آپ کے لیے واجب غسل کی اقسام اور ان کی تفصیل شئیر کر رہا ہوں کہ کن کن حالات میں غسل واجب ہوتا ہے۔

    واجب غسل سات ہیں : (پہلا) غسل جنابت (دوسرا) غسل حیض (تیسرا) غسل نفاس (چوتھا) غسل استحاضہ
    (پانچواں) غسل مس میت (چھٹا) غسل میت اور (ساتواں) و غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔


    جنابت کے احکام
    ۔ دو چیزوں سے انسان جُنُب ہو جاتا ہے اول جماع سے اور دوم منی کے خارج ہونے سے خواہ و نیند کی حالت میں نکلے یا جاگتے ہیں، کم ہو یا زیادہ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا متعلقہ شخص کے اختیار میں ہو یا نہ ہو۔
    ۔ اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا کوئی اور چیز اور اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر متعلقہ شخص بیمار ہو تو پھر ضروری نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہوگی۔

    ۔ اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔

    ۔ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔

    ۔ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دُبُر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اور خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں جنب ہو جاتے ہیں۔

    ۔ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

    ۔ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔

    ۔ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

    ۔ جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہو وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔

    ۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کے لئے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔

    وہ چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں۔
    پانچ چیزیں جنب شخص پر حرام ہیں۔

    اول اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ تعالی کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا۔ اور بہتریہ ہے کہ پیغمبروں، اماموں اور حضرت زہرا علیہم السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔
    دوم مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔
    سوم مسجد الحرام اور اور مسجدی نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر اماموں کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔
    چہارم احتیاط لازم کی بنا پر کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے یا کوئی چیز اٹھانے کے لئے داخل ہونا۔

    پنجم ان آیات میں سے کسی آیت کا پرھنا جن کے پرھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیتیں چار سورتوں میں ہیں
    (۱) قرآن مجید کی ۳۲ ویں سورۃ (آلمّ تنزیل) (۲) ۴۱ ویں سورۃ (حٰمٓ سجدہ) (۳) ۵۳ ویں سورۃ (وَالنَّجم) (۴) ۹۶ ویں سورۃ (عَلَق

    وہ چیزیں جو مجنب کے لئے مکروہ ہیں۔
    نو چیزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہیں۔

    اول اور دوم کھانا پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھولے اور کلی کرلے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھولے تو بھی کراہت کم ہوجائے گی۔
    سوم قرآن مجید کی ساتھ سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہوا۔
    چہارم اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔
    پنجم قرآنی مجید اپنے ساتھ رکھنا۔
    ششم سونا۔ البتہ اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کرلے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔
    ہفتم مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔
    ہشتم بدن پر تیل ملنا۔
    نہم احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جماع کرنا۔

    غسل جنابت
    ۔ غسل جنابت واجب نماز پڑھنے کے لئے اور ایسی دوسری عبادات کے لئے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت، سجدہ سہو، سجدہ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہیں ہے۔
    ۔ یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے، بلکہ فقط قُربَۃ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالی کی رضا کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کرلے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔
    ۔ غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔

    ترتیبی غسل
    ۔ ترتیبی غسل میں احتیاط لازم کی بنا پر غسل کی نیت سے پہلے پورا سر اور گردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ اور تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے نیچے حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفانہ کرنے میں ہے۔ اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لئے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھولے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔
    ۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے سر، گردن اور جسم کا دایاں و بایاں حصہ مکمل طور پر دھولیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھوا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔
    ۔ اگر کسی کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں یا بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد دائیں اور بائیں حصے کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

    ارتماسی غسل
    ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دَفعی اور تَدرِیجِی۔

    ۔ غسل ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے میں پورے بدن کے ساتھ پانی میں ڈبکی لگائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔

    ۔ غسل ارتماسی تدریحی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے ایک دفعہ بدن کو دھونے کا خیال رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ لگائے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتہ چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
    ۔ اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لئے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی غسل کے لئے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔
    ۔ جس شخص نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔

    غسل کے احکام

    ۔ غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے سے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہوگا۔
    ۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ اسے پسینہ بھی آئے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔
    ۔ غسل میں بال برابر بدن بھی اگر ان دھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بارے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھولے۔
    ۔ اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
    ۔ جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس سے پیشتر کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہ چیز ہٹ گئی ہے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتی کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔
    ۔ غسل میں کہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزوشمار ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچاجا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔
    ۔ وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لئے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لئے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے لہذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا ہو اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کرکے تماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔
    ۔ اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والاراضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کرلے اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر حمام والا ادھار غسل کرنے کے لئے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہوگا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمے رہے گا۔
    ۔ اگر کوئی شخص مقعد کو حمام کے حوض کے پانی سے پاک کرے اور غسل کرنے سے پہلے شک کرے کہ چونکہ اس نے حمام کے حوض سے طہارت کی ہے اس لئے حمام والا اس کے غسل کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو اگر وہ غسل سے پہلے حمام والے کو راضی کر لے تو صحیح ورنہ اس کا غسل باطہ ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں۔
    ۔ اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حَدَثِ اصغر سرزد ہوجائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کرکے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ترتیبی سے غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی یا ارتماسی دفعی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
    ۔ اگر وقت کی تنگی کی وجہ مکلف شخص کا وظیفہ تیمم ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لئے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت سے کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے غسل کیا ہو۔
    ۔ جو شخص جنیب ہو اگر وہ شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں لیکن بعد کی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔
    ۔ جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کرکے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔
    ۔ اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہو تو وضو یا غسل ترتیبی کرتے وقت اسے چاہئے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے
    ۔
    Last edited by Shaheen Latif; 17th August 2017 at 09:15 PM.

  2. #2
    Huraira.'s Avatar
    Huraira. is offline Advance Member+
    Last Online
    20th September 2022 @ 12:30 AM
    Join Date
    24 Jan 2017
    Location
    Faisalabad
    Age
    24
    Gender
    Male
    Posts
    2,895
    Threads
    305
    Credits
    25,610
    Thanked
    479

    Default

    جزاک اللہ

  3. #3
    Mehtab785's Avatar
    Mehtab785 is offline V.I.P
    Last Online
    21st April 2024 @ 01:23 PM
    Join Date
    05 Sep 2015
    Location
    @itdunya.com
    Gender
    Male
    Posts
    2,995
    Threads
    196
    Credits
    15,607
    Thanked
    371

    Default

    وعلیکم السلام
    بہت ہی لاجواب تھریڈ

  4. #4
    Raza 834 is offline Advance Member
    Last Online
    22nd July 2021 @ 06:46 PM
    Join Date
    10 Dec 2013
    Location
    talwandi kasur
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    1,615
    Threads
    64
    Credits
    2,452
    Thanked
    96

    Default

    jazakALLAH

  5. #5
    Join Date
    24 Aug 2013
    Location
    MinwaLi
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    6,149
    Threads
    374
    Credits
    10,180
    Thanked
    442

    Default

    وعلیکم السلام
    جزاک اللہ
    بہت پیارا تھریڈ تشکیل دیا ہے
    کافی ممبرز کو اس سے فائدہ ہو گا
    اللہ پاک آپ کو سدا خوش رکھے آمین
    Never Stop Learning And Growing

  6. #6
    Join Date
    17 Jul 2017
    Age
    22
    Gender
    Male
    Posts
    2,731
    Threads
    256
    Thanked
    801

    Default

    Quote Shaheen Latif said: View Post
    Name:  488-AlSalam.gif
Views: 184
Size:  143.5 KB

    ڈئیر آئی ٹی ڈی ممبران
    آج ایک بہت ہی اہم موضوع پر تھریڈ بنا رہا ہوں۔ اس تھریڈ کا مقصد ان ممبران کو اگاہی فراہم کرنا ہے
    جن کو ابھی تک ان مسائل کے بارے میں اگاہی نہیں ہے۔
    کیوں کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنی آئتوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہوں اور اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔
    اکثر ممبران کو غسل کے بارے میں صحیح معلو مات نہیں ہوتیں اور وہ شرم کے مارے کسی سے پوچھتے بھی نہیں۔
    ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم رکن نماز ہے جو روزانہ پانچ مرتبہ ادا کرنی ہوتی ہے۔
    ہر عبادت کے لیے سب سے پہلی شرط طہارت ہے۔ اگر انسان کو پتہ ہی نہ ہو کہ وہ پاک صاف ہے کہ نہیں۔
    اور وہ اپنی عبادت میں مشغول رہے تو ایسی عبادت رائے گاہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
    تو آج میں آپ کے لیے واجب غسل کی اقسام اور ان کی تفصیل شئیر کر رہا ہوں کہ کن کن حالات میں غسل واجب ہوتا ہے۔

    واجب غسل سات ہیں : (پہلا) غسل جنابت (دوسرا) غسل حیض (تیسرا) غسل نفاس (چوتھا) غسل استحاضہ
    (پانچواں) غسل مس میت (چھٹا) غسل میت اور (ساتواں) و غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔


    جنابت کے احکام
    ۔ دو چیزوں سے انسان جُنُب ہو جاتا ہے اول جماع سے اور دوم منی کے خارج ہونے سے خواہ و نیند کی حالت میں نکلے یا جاگتے ہیں، کم ہو یا زیادہ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا متعلقہ شخص کے اختیار میں ہو یا نہ ہو۔
    ۔ اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا کوئی اور چیز اور اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر متعلقہ شخص بیمار ہو تو پھر ضروری نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہوگی۔

    ۔ اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔

    ۔ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔

    ۔ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دُبُر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اور خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں جنب ہو جاتے ہیں۔

    ۔ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

    ۔ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔

    ۔ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

    ۔ جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہو وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔

    ۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کے لئے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔

    وہ چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں۔
    پانچ چیزیں جنب شخص پر حرام ہیں۔

    اول اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ تعالی کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا۔ اور بہتریہ ہے کہ پیغمبروں، اماموں اور حضرت زہرا علیہم السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔
    دوم مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔
    سوم مسجد الحرام اور اور مسجدی نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر اماموں کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔
    چہارم احتیاط لازم کی بنا پر کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے یا کوئی چیز اٹھانے کے لئے داخل ہونا۔

    پنجم ان آیات میں سے کسی آیت کا پرھنا جن کے پرھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیتیں چار سورتوں میں ہیں
    (۱) قرآن مجید کی ۳۲ ویں سورۃ (آلمّ تنزیل) (۲) ۴۱ ویں سورۃ (حٰمٓ سجدہ) (۳) ۵۳ ویں سورۃ (وَالنَّجم) (۴) ۹۶ ویں سورۃ (عَلَق

    وہ چیزیں جو مجنب کے لئے مکروہ ہیں۔
    نو چیزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہیں۔

    اول اور دوم کھانا پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھولے اور کلی کرلے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھولے تو بھی کراہت کم ہوجائے گی۔
    سوم قرآن مجید کی ساتھ سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہوا۔
    چہارم اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔
    پنجم قرآنی مجید اپنے ساتھ رکھنا۔
    ششم سونا۔ البتہ اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کرلے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔
    ہفتم مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔
    ہشتم بدن پر تیل ملنا۔
    نہم احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جماع کرنا۔

    غسل جنابت
    ۔ غسل جنابت واجب نماز پڑھنے کے لئے اور ایسی دوسری عبادات کے لئے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت، سجدہ سہو، سجدہ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہیں ہے۔
    ۔ یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے، بلکہ فقط قُربَۃ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالی کی رضا کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کرلے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔
    ۔ غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔

    ترتیبی غسل
    ۔ ترتیبی غسل میں احتیاط لازم کی بنا پر غسل کی نیت سے پہلے پورا سر اور گردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ اور تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے نیچے حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفانہ کرنے میں ہے۔ اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لئے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھولے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔
    ۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے سر، گردن اور جسم کا دایاں و بایاں حصہ مکمل طور پر دھولیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھوا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔
    ۔ اگر کسی کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں یا بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد دائیں اور بائیں حصے کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

    ارتماسی غسل
    ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دَفعی اور تَدرِیجِی۔

    ۔ غسل ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے میں پورے بدن کے ساتھ پانی میں ڈبکی لگائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔

    ۔ غسل ارتماسی تدریحی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے ایک دفعہ بدن کو دھونے کا خیال رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ لگائے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔
    ۔ اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتہ چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
    ۔ اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لئے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی غسل کے لئے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔
    ۔ جس شخص نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔

    غسل کے احکام

    ۔ غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے سے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہوگا۔
    ۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ اسے پسینہ بھی آئے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔
    ۔ غسل میں بال برابر بدن بھی اگر ان دھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔
    ۔ اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بارے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھولے۔
    ۔ اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
    ۔ جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس سے پیشتر کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہ چیز ہٹ گئی ہے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتی کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔
    ۔ غسل میں کہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزوشمار ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچاجا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔
    ۔ وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لئے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لئے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے لہذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا ہو اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کرکے تماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔
    ۔ اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والاراضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کرلے اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر حمام والا ادھار غسل کرنے کے لئے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہوگا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمے رہے گا۔
    ۔ اگر کوئی شخص مقعد کو حمام کے حوض کے پانی سے پاک کرے اور غسل کرنے سے پہلے شک کرے کہ چونکہ اس نے حمام کے حوض سے طہارت کی ہے اس لئے حمام والا اس کے غسل کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو اگر وہ غسل سے پہلے حمام والے کو راضی کر لے تو صحیح ورنہ اس کا غسل باطہ ہے۔
    ۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں۔
    ۔ اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حَدَثِ اصغر سرزد ہوجائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کرکے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ترتیبی سے غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی یا ارتماسی دفعی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
    ۔ اگر وقت کی تنگی کی وجہ مکلف شخص کا وظیفہ تیمم ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لئے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت سے کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے غسل کیا ہو۔
    ۔ جو شخص جنیب ہو اگر وہ شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں لیکن بعد کی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔
    ۔ جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کرکے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔
    ۔ اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہو تو وضو یا غسل ترتیبی کرتے وقت اسے چاہئے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے
    ۔
    بہت ہی اچھا تھریڈ ہے جزاک اللّه .
    اللّه آپ کو آپ کے ہر مقصد میں کامیاب کرے .

    @Shaheen Latif ;

    Sent from my QMobile X2i using Tapatalk

  7. #7
    mua47's Avatar
    mua47 is offline Senior Member+
    Last Online
    18th October 2017 @ 01:28 PM
    Join Date
    16 Sep 2017
    Gender
    Male
    Posts
    60
    Threads
    0
    Credits
    288
    Thanked
    14

    Default

    JAZAKALLAH

Similar Threads

  1. Replies: 9
    Last Post: 6th November 2016, 03:30 PM
  2. Replies: 5
    Last Post: 17th January 2015, 03:32 PM
  3. Replies: 19
    Last Post: 11th March 2014, 08:05 AM
  4. Replies: 7
    Last Post: 31st December 2010, 08:12 PM
  5. Replies: 32
    Last Post: 8th January 2010, 07:54 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •