بہت خوب جناب آپ کا جواب درست ہے
اس شعر کے حوالے سے میں تفصیل بتادو کہ
یہ شعر قرآن حکیم کی آیت کا ترجمہ ہے اور یہ تخلیقی ترجمہ مولانا ظفرعلی خان نے کیا ہے۔
میں شائع ہونے والی مولانا ظفر علی خان کی کتاب بہارستان میں شامل ہے یہ شعر1937
میں شائع ہونے والی مولانا ظفر علی خان کی کتاب بہارستان میں شامل ہے
ظفر علی خان کا یہ شعر قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا آزاد ترجمہ ہے اس پر غور و خوص انسانی ذہن اور تاریخ کے کئی اہم پہلوﺅں کا انکشاف بن سکتا ہے۔
انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتا ہے اس کا عادی ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ ماحول اسے ”فطری“ نظر آنے لگتا ہے۔ اُسے لگتا ہے زندگی جیسی ہے ویسی ہی ہے اور اس کو ایسا ہی رہنا چاہیے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے اس حوالے سے ایک بڑی اور اہم بات کہی ہے۔ شیخ اکبر نے فرمایا ہے گُو کا کیڑا گُو میں خوش رہتا ہے اور خوشبو کا کیڑا خوشبو میں خوش رہتا ہے۔ یعنی انسان اگر آلودہ ماحول میں پلا بڑھا ہو تو وہ اسی ماحول میں مسرت محسوس کرنے لگتا ہے اور اگر کوئی انسان پاک صاف ماحول میں رہتا ہو تو وہ اسی ماحول میں فرحت محسوس کرتا ہے۔ ماحول کی یہ عادت انسان کو تبدیلی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونے دیتی اور چونکہ انسان تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس کے حال کو تبدیل نہیں کرتے۔
Bookmarks