Results 1 to 3 of 3

Thread: پاکستان میں اسلامی انقلاب کو روکنے کیلئے ’

  1. #1
    hayat1's Avatar
    hayat1 is offline Senior Member+
    Last Online
    27th September 2022 @ 07:09 PM
    Join Date
    25 Mar 2013
    Age
    33
    Gender
    Male
    Posts
    32
    Threads
    4
    Credits
    95
    Thanked: 1

    Default پاکستان میں اسلامی انقلاب کو روکنے کیلئے ’

    ابلیس اور اس کے پیروکاروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ انسانیت کو راہِ حق سے ہٹا کر ایسے گمراہ کن راستوں پر ڈال دے جس سے ایک طرف وہ اللہ کی رضا و خوشنودی سے محروم ہوکر جہنم میں جائے اور دوسری طرف وہ دنیاوی طور پر رسوائی اور ناکامی کا شکار ہوکر مغلوب اور ذلت وپسماندگی کی غلامانہ زندگی گزارے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے یہ ابلیسی ٹولہ ہر دور میں اللہ رب العزت کے عطاکردہ ”دین اسلام“ کے
    مقابلے میں قوموں کے مزاج اور حالات کے تناظر میں اپنا ایک نیا نظامِ زندگی وضع کرتا ہے اور پھر اسی نظامِ زندگی کو اپنی پوری قوت کے ساتھ خوشنما بناکر نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن جب کبھی انسانیت اس ابلیسی ٹولے کے وضع کردہ غلیظ اور ظلم و بربریت پر مبنی نظامِ زندگی سے بیزار ہونے اور بغاوت کرنے کے لئے بیدار ہونے لگتی ہے تو یہ ابلیسی ٹولہ اسی فرسودہ اور باطل نظام کو ”نئے چہروں“ …اور…”نئے ناموں“ سے دوبارہ انسانیت پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    چنانچہ اس دوران اگر کچھ مردان حق اس نظام کی خباثتوں کو ببانگ دہل بیان نہیں کرتے اور اس کے خلاف سینہ سپر نہیں ہوتے تو پھر کچھ عرصے کے لئے انسانیت دوبارہ اسی فرسودہ نظام پر راضی اور خوش ہوجاتی ہے اور دوسری طرف ابلیسی ٹولہ اپنی مستیوں میں مگن رہتا ہے اور بالآخر تباہی وبربادی ان قوموں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

    ایسا ہی کچھ نقشہ آج کے اس دورِ جدید میں (جس کو اگر ”دورِ جاہلیت“ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا) ابلیسی ٹولے نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد، جب کہ مسلمانوں کا کوئی بھی نظام اجتماعی برائے نام بھی باقی نہ رہا تھا اور مسلمانوں کی وحدت کو یہود ونصاری کی استعماری ”سایکس بیکو“ تقسیم کے ذریعے سے مختلف ملکوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا گیاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں دوبارہ احیائے خلافت اورغلبہ اسلام کے لئے مختلف تحریکیں بھی کھڑی ہورہی تھیں، جن کو کچلنے کے لیے اپنےخبیث نظام کو ”نظام جمہوریت“ کے نام پر متعارف کرایا اور اس کو پورے عالم اسلام پر لاگو کیا تاکہ اپنے تسلط کو بالواسطہ یا بلاواسطہ برقرار رکھا جاسکے اور مسلمانوں کو تاحیات غلام بناکر ان پر حکمرانی کی جاسکے۔

    اس مقصد کے لیے دوسری عالمی جنگ کی فاتح استعماری کافر قوتوں نے بین الاقوامی حاکمیت کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے ”اقوام متحدہ“ کا نام دیا اور تمام مسلمانوں کو اللہ تعالی کے نظام شریعت کو چھوڑ کر اس نظام جمہوریت کو ماننے اور اس کے مطابق اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ یہود ونصاری کی بنائی گئی اقوام متحدہ نے ”نظامِ جمہوریت“ کو نیوورلڈآڈر قرار دیتے ہوئے اسے تمام اسلامی ممالک پر مسلط کرکے مسلمانوں کو اسلام سے دور اس باطل نظام کے ذریعے سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔

    عالمی جمہوری نظام کی قیادت کرنے والی اقوام متحدہ کی بین الاقوامی حاکمیت میں صرف پانچ کافر متکبر قوتوں کا سکہ چلتا ہے، جو باقی دنیا کی عواموں پر اپنے احکامات اور فیصلے دھونس اور زبردستی کے ساتھ مسلط کرتے ہیں، نیز یہود ونصاری کی خواہشات کے مطابق اس کے ارکان جنرل اسمبلی میں فیصلے اکثریت رائے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا میثاق اپنے ارکان کی سرزمینوں کی سالمیت اور بالادستی کا احترام کرنے کو کہتا ہے، جس کا مطلب مسلمانوں کے کئی مقبوضہ ممالک پر کافروں کی استعماری حکمرانی کو تسلیم کرنا اور اس کا احترام کرنا ہے جیساکہ مشرقی ترکستان پر چین کے، مسلم قوقاز پر روس کے، سبتہ اور ملیلہ پر اسپین کے اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے ایسی دسیوں قراردادیں منظور کیں جن کی بدولت مسلم سرزمینوں پر جارحیت مسلط اور چڑھائی کرنے کو جائز قراردیا گیا۔ جیسے: تقسیمِ فلسطین کی قرارداد، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قرارداد، عراق پر پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد، افغانستان اور مالی پر صلیبی حملوں کو جائز قراردینے کی قراردادیں۔

    بس جس نے اقوام متحدہ کے اس استعماری نظامِ جمہوریت (جوکہ دراصل ”ابلیسی نظامِ کفریہ“ ہے) کو تسلیم کرتے ہوئے سیاست و اقتدار کو اس نظام کے مطابق چلایا، اس کو تو جینے کا حق حاصل رہا، مگر جس کسی نے اس نظام کو چھوڑ کر اس کے مقابلے میں موجود کسی وضع شدہ آئین کی حاجت کے بغیر شریعت اسلامی کو نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس سے جینے کا حق بھی چھن لیا گیا، اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔

    آج بلادِ اسلامیہ میں جب کہ بیداری کی لہر پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوچکی ہے اور عالم اسلام مغرب کے عطاکردہ جمہوری نظام کی ظلم و بربریت دیکھ کر ”شریعت اسلامی“ کے نفاذ کی طرف متوجہ ہورہا ہے، اس وقت بھی ان ہی نام نہاد دینی و سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جوکہ اس جمہوری ابلیسی نظام پر ایمان رکھتے ہوئے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں (لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس راستے سے کبھی اسلامی شریعت کا مکمل نفاذ ممکن ہی نہیں جیساکہ ہم نے اوپر ثابت کردیا کہ یہ نظام ہے ہی مسلمانوں کو تاحیات غلام بنائے رکھے جانے کا ضامن)۔ اس کی زندہ مثالیں ترکی، تیونس، مصر وغیرہ ہیں جہاں ایسی مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں لایا گیا جوکہ اس جمہوری کفری نظام پر یقین رکھتی ہیں اور پھر انہوں نے اس نظام کو اپنانے کے بعد استعماری طاقتوں کے ہاتھوں روبوٹ بن کر ان کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے اہل اسلام اور مسلمانوں پر پہلے سے بھی زیادہ مزید ظلم وستم ڈھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    اس کے برعکس ان قوتوں کو اقتدار میں آنے سے پوری قوت کے ساتھ روکنے کی کوشش کی گئی جوکہ انسانی ہاتھوں اور ذہنوں سے وضع کردہ استعماری آئین و دستور سے آزاد رہ کر خالصتاً حقیقی اسلامی وانسانی اور امن وامان والا نظام الہی کو لانا چاہتے ہیں جس کی اولین ترجیحات میں اللہ تعالی کی شریعت کو نافذ اور خلافت کا قیام سرفہرست ہے۔ لیبیا، مالی اور شام اس کی بہترین مثالیں ہیں جہاں ذکر کردہ مقاصد کے حصول میں سرکردہ اسلامی قوتوں کو اکثریت میں ہونے کے باوجود عالم کفر متفقہ طور پر اقتدار میں آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوششیں کررہا ہے اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہارہا ہے۔

    جہاں تک تعلق ہے ”بلادِ اسلامیہ پاکستان“ کا، یہاں بھی اسی قسم کی معرکہ آرائی اس ملک کے قیام کے دن سے جاری وساری ہے کہ ان نام نہاد دینی جماعتوں کو تو سیاست کرنے اور اقتدار کی دوڑ میں ایک حد تک شریک ہونے کی اجازت ہے جوکہ غلامانہ استعماری جمہوری فرنگی اقدار پر یقین رکھتی ہوں؛ جبکہ ان مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا جاتا ہے جنہوں نے اس کفریہ جمہوری نظام سے برأت کرتے ہوئے خالصتاً شریعت کے نفاذ کی آواز اٹھائی ہو (جیساکہ: لال مسجد اور سوات کی ”شریعت یا شہادت“ کی تحریک)…اور اب ان پانچ سالوں میں ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کے اصول پر جو انتقام بلاد اسلامیہِ پاکستان کے عوام سے لیا گیا ہے، اس ابلیسی جمہوری نظام سے بیزاری آج پورے عروج پر ہے اور اس استعماری نظام کفر کی بنیادیں اب بوسیدہ ہوچکی ہیں اور قریب ہے کہ یہ نظام کسی وقت بھی شکست وریخت سے دوچار ہوجائے۔

    چنانچہ آج پورا عالم کفر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھنے کی خاطر اس استعماری نظام کو برقرار رکھنے کے لئے پوری طرح متحرک نظر آرہا ہے۔ آل سعود سے لے کر آل یہود تک سب اس نظام کی بقاء کے حوالے سے متفکر ہیں اور اس کے لئے اپنے نئے اور پرانے جمہوری مذہبی وسیاسی کارندوں کو حرکت میں لایا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے ملغوبے کو اقتدار بخشا جائے جوکہ اصلاً تو اسی ابلیسی جمہوری نظام کا پاسباں ہو مگر اس میں نام نہاد اسلامی جماعتوں کی شرکت کی وجہ سے اسلامی چھاپ بھی نظر آئے۔
    مسلمانوں پر جمہوری نظام کو مسلط کرنے کے لیے تمام اہل کافر متحد ہوکر ایڑی چوٹی کا زور اس لیے لگارہے ہیں کہ یہ ابلیسی جمہوری نظام مسلمانوں کو فکری، سیاسی، معاشی، عسکری، معاشرتی، ثقافتی، تہذیبی اور اجتماعی طور پرغلام بنائے رکھنے کا ضامن ہے۔ جب تک یہ استعماری نظام مسلمانوں پر مسلط ہوگا اس وقت تک مسلمانوں کو نہ آزادی مل سکے گی، نہ وہ اللہ کے دین اسلام کو نافذ کرسکیں گے، نہ تمام مسلمان بکھرے ہوئے مختلف ملکوں میں سے ایک امت مسلمہ بن سکیں گے، نہ مسلمانوں میں اسلامی اخوت، بھائی چارہ پیدا ہوگا، نہ مسلمانوں کے مابین امن وامان قائم ہوگا، نہ مسلمان کسی بھی سیاسی، فکری، معاشرتی اور اقتصادی میدانوں میں ترقی کرکے اس میدان کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں سنبھال کر دنیائے عالم کی قیادت دوبارہ کرنے کےقابل ہوسکیں گے۔

    الغرض مسلمان اس استعماری جمہوری نظام کی بدولت ہر میدان میں اور ہر سطح پر غلام کی طرح رہیں گے اور شکست خوردہ اقوام کی طرح ذلت ورسوائی کو گلے سے لگاکر پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔

    مسلمانوں میں اتنی ہمت باقی نہیں رہے گی کہ وہ اپنے آپ کو آزاد کرانے کے لیے استعماری طاقتوں کیخلاف جدوجہد کریں کیونکہ اگر کوئی مسلمان ایسا کرنے کی جرأت کرے گا تو مسلمانوں پر مسلط استعماری طاقتوں کے کارندے جمہوری نظام کی رٹ قائم کرنے کے نام پر اس کو نشانہ بنانے میں لگ جائیں گے۔ پھر یہی جمہوری نظام کے محافظ حکمران اور افواج اس مسلمان کو باغی اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی سرکوبی کے لیے ہر سطح پر سازشیں اور چالیں چلتے ہوئے بیگناہ عام مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانے اور استعماری طاقتوں کی چوکھٹوں پر ان کے خون کے چڑھاوے چڑھانے لگ جائیں گے۔

    جب ان حکمرانوں کا اصل چہرہ عوام الناس کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا اور وہ ان کی اصلیت کو پہچان جائیں گے تو استعماری طاقتیں اپنے نئے اور پرانے آلہ کاروں کو انتخابات میں کھڑا کرکے عوام الناس کے سامنے مختلف سبزباغوں اور مختلف وعدوں کے ساتھ نجات دہندہ بناکر پیش کریں گی۔

    اب سادہ لوح عوام انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے جس کے ساتھ بھی امیدیں وابستہ کرلیں اور جسے مرضی اقتدار میں لے آئیں، کام اس نے استعماری طاقتوں کی خواہشات ہی کے مطابق کرنا ہے۔ وہ نت نئے طریقوں سے ابلیسی جمہوری نظام کی رِٹ قائم کرنے کے نام پر مسلمانوں پر کافروں کے شکنجے کو مضبوط بنانے اور انہیں مزید غلامی، پسماندگی اور ذلت ورسوائی کی کھائیوں میں دکھیلنے میں لگا رہے گا۔

    اس طرح جمہوری نظام میں نئے چہرے، نئے ناموں اور نئے طریقے سے یہی کھیل ہر بارکی طرح دوبارہ دہرایا جاتا رہے گا اور مسلمان برائی کی جڑ ”جمہوری نظام“ کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے اس نظام میں آنے والے چہروں اور ناموں کو تبدیل کرنے میں اپنی جدوجہد اور اپنا وقت برباد کرتے رہیں گے، جس سے نہ مسلم عوام کے حالات تبدیل ہونگے اور نہ استعماری طاقتوں کی طرف کوئی متوجہ ہی ہوگا۔

    لہذا اہل پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ برصغیر پاک وہند میں فرنگی تسلط کے بعد سے جو کھیل یہاں کھیلا گیا، اس کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کھیل کے جو کردار تھے، ان کی تاریخ کو اور ان کرداروں کے جانشین جو کردار اب پاکستان میں ادا کررہے ہیں اس کو جان لیں تاکہ اُس دھوکے اور فریبی جال سے چھٹکارا پاسکیں جس میں وہ ساٹھ سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔

    زیرِ نظر کتاب اسی تناظر میں ایک ادنیٰ سی کاوش ہے جس کو بھرپور طریقے سے عام کرنے اور اس حوالے سے عوام الناس کا ذہن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے عوام ظلم وبربریت پر مبنی استعماری ابلیسی نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے شریعت کے نفاذ کی طرف متوجہ ہوسکیں جوکہ دنیا وآخرت دونوں میں فلاح و کامیابی کا ضامن ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ:

    { إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ} [الرعد : 11]

    ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدل دیتی۔اور جب اللہ کسی قوم کی پکڑ کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اوراس کے سوا کوئی بھی ان کا مددگار نہیں“۔

    (انصار اللہ اردو کی کتاب ”پاکستان میں جمہوری نظام لانا“ مسلمانوں کو ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسنے کی گھناؤنی سازش نامی کتاب سے اقتباس)

  2. #2
    KAKAR is offline Senior Member+
    Last Online
    1st September 2018 @ 09:36 AM
    Join Date
    03 Jan 2009
    Location
    Balochistan
    Age
    37
    Gender
    Male
    Posts
    235
    Threads
    57
    Credits
    1,019
    Thanked
    32

    Default

    بہت خوب جناب

  3. #3
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,912
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    Quote hayat1 said: View Post
    ابلیس اور اس کے پیروکاروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ انسانیت کو راہِ حق سے ہٹا کر ایسے گمراہ کن راستوں پر ڈال دے جس سے ایک طرف وہ اللہ کی رضا و خوشنودی سے محروم ہوکر جہنم میں جائے اور دوسری طرف وہ دنیاوی طور پر رسوائی اور ناکامی کا شکار ہوکر مغلوب اور ذلت وپسماندگی کی غلامانہ زندگی گزارے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے یہ ابلیسی ٹولہ ہر دور میں اللہ رب العزت کے عطاکردہ ”دین اسلام“ کے
    مقابلے میں قوموں کے مزاج اور حالات کے تناظر میں اپنا ایک نیا نظامِ زندگی وضع کرتا ہے اور پھر اسی نظامِ زندگی کو اپنی پوری قوت کے ساتھ خوشنما بناکر نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن جب کبھی انسانیت اس ابلیسی ٹولے کے وضع کردہ غلیظ اور ظلم و بربریت پر مبنی نظامِ زندگی سے بیزار ہونے اور بغاوت کرنے کے لئے بیدار ہونے لگتی ہے تو یہ ابلیسی ٹولہ اسی فرسودہ اور باطل نظام کو ”نئے چہروں“ …اور…”نئے ناموں“ سے دوبارہ انسانیت پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    چنانچہ اس دوران اگر کچھ مردان حق اس نظام کی خباثتوں کو ببانگ دہل بیان نہیں کرتے اور اس کے خلاف سینہ سپر نہیں ہوتے تو پھر کچھ عرصے کے لئے انسانیت دوبارہ اسی فرسودہ نظام پر راضی اور خوش ہوجاتی ہے اور دوسری طرف ابلیسی ٹولہ اپنی مستیوں میں مگن رہتا ہے اور بالآخر تباہی وبربادی ان قوموں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

    ایسا ہی کچھ نقشہ آج کے اس دورِ جدید میں (جس کو اگر ”دورِ جاہلیت“ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا) ابلیسی ٹولے نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد، جب کہ مسلمانوں کا کوئی بھی نظام اجتماعی برائے نام بھی باقی نہ رہا تھا اور مسلمانوں کی وحدت کو یہود ونصاری کی استعماری ”سایکس بیکو“ تقسیم کے ذریعے سے مختلف ملکوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا گیاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں دوبارہ احیائے خلافت اورغلبہ اسلام کے لئے مختلف تحریکیں بھی کھڑی ہورہی تھیں، جن کو کچلنے کے لیے اپنےخبیث نظام کو ”نظام جمہوریت“ کے نام پر متعارف کرایا اور اس کو پورے عالم اسلام پر لاگو کیا تاکہ اپنے تسلط کو بالواسطہ یا بلاواسطہ برقرار رکھا جاسکے اور مسلمانوں کو تاحیات غلام بناکر ان پر حکمرانی کی جاسکے۔

    اس مقصد کے لیے دوسری عالمی جنگ کی فاتح استعماری کافر قوتوں نے بین الاقوامی حاکمیت کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے ”اقوام متحدہ“ کا نام دیا اور تمام مسلمانوں کو اللہ تعالی کے نظام شریعت کو چھوڑ کر اس نظام جمہوریت کو ماننے اور اس کے مطابق اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ یہود ونصاری کی بنائی گئی اقوام متحدہ نے ”نظامِ جمہوریت“ کو نیوورلڈآڈر قرار دیتے ہوئے اسے تمام اسلامی ممالک پر مسلط کرکے مسلمانوں کو اسلام سے دور اس باطل نظام کے ذریعے سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔

    عالمی جمہوری نظام کی قیادت کرنے والی اقوام متحدہ کی بین الاقوامی حاکمیت میں صرف پانچ کافر متکبر قوتوں کا سکہ چلتا ہے، جو باقی دنیا کی عواموں پر اپنے احکامات اور فیصلے دھونس اور زبردستی کے ساتھ مسلط کرتے ہیں، نیز یہود ونصاری کی خواہشات کے مطابق اس کے ارکان جنرل اسمبلی میں فیصلے اکثریت رائے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا میثاق اپنے ارکان کی سرزمینوں کی سالمیت اور بالادستی کا احترام کرنے کو کہتا ہے، جس کا مطلب مسلمانوں کے کئی مقبوضہ ممالک پر کافروں کی استعماری حکمرانی کو تسلیم کرنا اور اس کا احترام کرنا ہے جیساکہ مشرقی ترکستان پر چین کے، مسلم قوقاز پر روس کے، سبتہ اور ملیلہ پر اسپین کے اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے ایسی دسیوں قراردادیں منظور کیں جن کی بدولت مسلم سرزمینوں پر جارحیت مسلط اور چڑھائی کرنے کو جائز قراردیا گیا۔ جیسے: تقسیمِ فلسطین کی قرارداد، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قرارداد، عراق پر پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد، افغانستان اور مالی پر صلیبی حملوں کو جائز قراردینے کی قراردادیں۔

    بس جس نے اقوام متحدہ کے اس استعماری نظامِ جمہوریت (جوکہ دراصل ”ابلیسی نظامِ کفریہ“ ہے) کو تسلیم کرتے ہوئے سیاست و اقتدار کو اس نظام کے مطابق چلایا، اس کو تو جینے کا حق حاصل رہا، مگر جس کسی نے اس نظام کو چھوڑ کر اس کے مقابلے میں موجود کسی وضع شدہ آئین کی حاجت کے بغیر شریعت اسلامی کو نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس سے جینے کا حق بھی چھن لیا گیا، اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔

    آج بلادِ اسلامیہ میں جب کہ بیداری کی لہر پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوچکی ہے اور عالم اسلام مغرب کے عطاکردہ جمہوری نظام کی ظلم و بربریت دیکھ کر ”شریعت اسلامی“ کے نفاذ کی طرف متوجہ ہورہا ہے، اس وقت بھی ان ہی نام نہاد دینی و سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جوکہ اس جمہوری ابلیسی نظام پر ایمان رکھتے ہوئے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں (لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس راستے سے کبھی اسلامی شریعت کا مکمل نفاذ ممکن ہی نہیں جیساکہ ہم نے اوپر ثابت کردیا کہ یہ نظام ہے ہی مسلمانوں کو تاحیات غلام بنائے رکھے جانے کا ضامن)۔ اس کی زندہ مثالیں ترکی، تیونس، مصر وغیرہ ہیں جہاں ایسی مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں لایا گیا جوکہ اس جمہوری کفری نظام پر یقین رکھتی ہیں اور پھر انہوں نے اس نظام کو اپنانے کے بعد استعماری طاقتوں کے ہاتھوں روبوٹ بن کر ان کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے اہل اسلام اور مسلمانوں پر پہلے سے بھی زیادہ مزید ظلم وستم ڈھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    اس کے برعکس ان قوتوں کو اقتدار میں آنے سے پوری قوت کے ساتھ روکنے کی کوشش کی گئی جوکہ انسانی ہاتھوں اور ذہنوں سے وضع کردہ استعماری آئین و دستور سے آزاد رہ کر خالصتاً حقیقی اسلامی وانسانی اور امن وامان والا نظام الہی کو لانا چاہتے ہیں جس کی اولین ترجیحات میں اللہ تعالی کی شریعت کو نافذ اور خلافت کا قیام سرفہرست ہے۔ لیبیا، مالی اور شام اس کی بہترین مثالیں ہیں جہاں ذکر کردہ مقاصد کے حصول میں سرکردہ اسلامی قوتوں کو اکثریت میں ہونے کے باوجود عالم کفر متفقہ طور پر اقتدار میں آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوششیں کررہا ہے اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہارہا ہے۔

    جہاں تک تعلق ہے ”بلادِ اسلامیہ پاکستان“ کا، یہاں بھی اسی قسم کی معرکہ آرائی اس ملک کے قیام کے دن سے جاری وساری ہے کہ ان نام نہاد دینی جماعتوں کو تو سیاست کرنے اور اقتدار کی دوڑ میں ایک حد تک شریک ہونے کی اجازت ہے جوکہ غلامانہ استعماری جمہوری فرنگی اقدار پر یقین رکھتی ہوں؛ جبکہ ان مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا جاتا ہے جنہوں نے اس کفریہ جمہوری نظام سے برأت کرتے ہوئے خالصتاً شریعت کے نفاذ کی آواز اٹھائی ہو (جیساکہ: لال مسجد اور سوات کی ”شریعت یا شہادت“ کی تحریک)…اور اب ان پانچ سالوں میں ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کے اصول پر جو انتقام بلاد اسلامیہِ پاکستان کے عوام سے لیا گیا ہے، اس ابلیسی جمہوری نظام سے بیزاری آج پورے عروج پر ہے اور اس استعماری نظام کفر کی بنیادیں اب بوسیدہ ہوچکی ہیں اور قریب ہے کہ یہ نظام کسی وقت بھی شکست وریخت سے دوچار ہوجائے۔

    چنانچہ آج پورا عالم کفر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھنے کی خاطر اس استعماری نظام کو برقرار رکھنے کے لئے پوری طرح متحرک نظر آرہا ہے۔ آل سعود سے لے کر آل یہود تک سب اس نظام کی بقاء کے حوالے سے متفکر ہیں اور اس کے لئے اپنے نئے اور پرانے جمہوری مذہبی وسیاسی کارندوں کو حرکت میں لایا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے ملغوبے کو اقتدار بخشا جائے جوکہ اصلاً تو اسی ابلیسی جمہوری نظام کا پاسباں ہو مگر اس میں نام نہاد اسلامی جماعتوں کی شرکت کی وجہ سے اسلامی چھاپ بھی نظر آئے۔
    مسلمانوں پر جمہوری نظام کو مسلط کرنے کے لیے تمام اہل کافر متحد ہوکر ایڑی چوٹی کا زور اس لیے لگارہے ہیں کہ یہ ابلیسی جمہوری نظام مسلمانوں کو فکری، سیاسی، معاشی، عسکری، معاشرتی، ثقافتی، تہذیبی اور اجتماعی طور پرغلام بنائے رکھنے کا ضامن ہے۔ جب تک یہ استعماری نظام مسلمانوں پر مسلط ہوگا اس وقت تک مسلمانوں کو نہ آزادی مل سکے گی، نہ وہ اللہ کے دین اسلام کو نافذ کرسکیں گے، نہ تمام مسلمان بکھرے ہوئے مختلف ملکوں میں سے ایک امت مسلمہ بن سکیں گے، نہ مسلمانوں میں اسلامی اخوت، بھائی چارہ پیدا ہوگا، نہ مسلمانوں کے مابین امن وامان قائم ہوگا، نہ مسلمان کسی بھی سیاسی، فکری، معاشرتی اور اقتصادی میدانوں میں ترقی کرکے اس میدان کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں سنبھال کر دنیائے عالم کی قیادت دوبارہ کرنے کےقابل ہوسکیں گے۔

    الغرض مسلمان اس استعماری جمہوری نظام کی بدولت ہر میدان میں اور ہر سطح پر غلام کی طرح رہیں گے اور شکست خوردہ اقوام کی طرح ذلت ورسوائی کو گلے سے لگاکر پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔

    مسلمانوں میں اتنی ہمت باقی نہیں رہے گی کہ وہ اپنے آپ کو آزاد کرانے کے لیے استعماری طاقتوں کیخلاف جدوجہد کریں کیونکہ اگر کوئی مسلمان ایسا کرنے کی جرأت کرے گا تو مسلمانوں پر مسلط استعماری طاقتوں کے کارندے جمہوری نظام کی رٹ قائم کرنے کے نام پر اس کو نشانہ بنانے میں لگ جائیں گے۔ پھر یہی جمہوری نظام کے محافظ حکمران اور افواج اس مسلمان کو باغی اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی سرکوبی کے لیے ہر سطح پر سازشیں اور چالیں چلتے ہوئے بیگناہ عام مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانے اور استعماری طاقتوں کی چوکھٹوں پر ان کے خون کے چڑھاوے چڑھانے لگ جائیں گے۔

    جب ان حکمرانوں کا اصل چہرہ عوام الناس کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا اور وہ ان کی اصلیت کو پہچان جائیں گے تو استعماری طاقتیں اپنے نئے اور پرانے آلہ کاروں کو انتخابات میں کھڑا کرکے عوام الناس کے سامنے مختلف سبزباغوں اور مختلف وعدوں کے ساتھ نجات دہندہ بناکر پیش کریں گی۔

    اب سادہ لوح عوام انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے جس کے ساتھ بھی امیدیں وابستہ کرلیں اور جسے مرضی اقتدار میں لے آئیں، کام اس نے استعماری طاقتوں کی خواہشات ہی کے مطابق کرنا ہے۔ وہ نت نئے طریقوں سے ابلیسی جمہوری نظام کی رِٹ قائم کرنے کے نام پر مسلمانوں پر کافروں کے شکنجے کو مضبوط بنانے اور انہیں مزید غلامی، پسماندگی اور ذلت ورسوائی کی کھائیوں میں دکھیلنے میں لگا رہے گا۔

    اس طرح جمہوری نظام میں نئے چہرے، نئے ناموں اور نئے طریقے سے یہی کھیل ہر بارکی طرح دوبارہ دہرایا جاتا رہے گا اور مسلمان برائی کی جڑ ”جمہوری نظام“ کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے اس نظام میں آنے والے چہروں اور ناموں کو تبدیل کرنے میں اپنی جدوجہد اور اپنا وقت برباد کرتے رہیں گے، جس سے نہ مسلم عوام کے حالات تبدیل ہونگے اور نہ استعماری طاقتوں کی طرف کوئی متوجہ ہی ہوگا۔

    لہذا اہل پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ برصغیر پاک وہند میں فرنگی تسلط کے بعد سے جو کھیل یہاں کھیلا گیا، اس کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کھیل کے جو کردار تھے، ان کی تاریخ کو اور ان کرداروں کے جانشین جو کردار اب پاکستان میں ادا کررہے ہیں اس کو جان لیں تاکہ اُس دھوکے اور فریبی جال سے چھٹکارا پاسکیں جس میں وہ ساٹھ سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔

    زیرِ نظر کتاب اسی تناظر میں ایک ادنیٰ سی کاوش ہے جس کو بھرپور طریقے سے عام کرنے اور اس حوالے سے عوام الناس کا ذہن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے عوام ظلم وبربریت پر مبنی استعماری ابلیسی نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے شریعت کے نفاذ کی طرف متوجہ ہوسکیں جوکہ دنیا وآخرت دونوں میں فلاح و کامیابی کا ضامن ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ:

    { إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ} [الرعد : 11]

    ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدل دیتی۔اور جب اللہ کسی قوم کی پکڑ کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اوراس کے سوا کوئی بھی ان کا مددگار نہیں“۔

    (انصار اللہ اردو کی کتاب ”پاکستان میں جمہوری نظام لانا“ مسلمانوں کو ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسنے کی گھناؤنی سازش نامی کتاب سے اقتباس)
    جزاک اللہ خیر

Similar Threads

  1. Replies: 29
    Last Post: 27th March 2022, 12:44 PM
  2. Replies: 0
    Last Post: 15th February 2013, 05:06 AM
  3. Replies: 5
    Last Post: 8th October 2011, 11:23 AM
  4. Replies: 19
    Last Post: 15th December 2009, 06:03 AM
  5. Replies: 37
    Last Post: 24th November 2008, 12:43 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •