danish787 said:
نظم
زیست کا سہارا
میں نے بارہا یہ کوشش کی ہے
کوئی مل ایسا
جو بدل ہو تمہارا
کھرچ کھرچ کر مٹا دوں
تم سے جڑی ہوئی ہر یادیں
جیسے درخت اپنی شاخوں سے
گرادیتے ہیں سوکھے پتے
میں نے بار ہا یہ کوشش کی ہے
کسی صحرا میں دفن کردوں
تمہارے وجود کے احساس کو
بجھا دوں وہ سارے دیے
جو روشن ہیں حدت وصال سے
میں نے بارہا یہ کوشش کی ہے
لیکن بارہا یہ پایا ہے
تیرا وجود ہے بے نظیر
تیری ذات ہے بے بدل
ترے وجود سے مرے وجود کو
سہارا ہے زیست کا
اس لئے بارہا میں نے
معاف کی ہیں تمہاری ایسی خطائیں
جو ناقابل معافی تھیں
Dostom agar pasand aaye to like and comment zaroor kijiyega
Thanks
Danish Iqbal
Bookmarks