ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں*اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیمان ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر ابنر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہ لیتے ہیں اپنی زباں میں*کہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم لوگ کہاں اور میر کا رنگ کلام کہاں

Sent from my QMobile i6i using Tapatalk