Results 1 to 7 of 7

Thread: گریوٹیشنل ویو کیا ہے؟ (اجمالی جائزہ

  1. #1
    CONAN's Avatar
    CONAN is offline Senior Member+
    Last Online
    9th April 2018 @ 05:20 PM
    Join Date
    02 Oct 2007
    Location
    BRISTOL, ENGLAND
    Posts
    83
    Threads
    17
    Credits
    1,129
    Thanked
    2

    Default گریوٹیشنل ویو کیا ہے؟ (اجمالی جائزہ


    گریوٹیشنل ویو کیا ہے؟ (اجمالی جائزہ
    ۔۔
    گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت، تاریخ ِ علوم ِ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ



    آج کا دن علوم انسانی کی تاریخ میں سب سے اہم ہے۔ آج لائیگو نے گریویٹیشنل ویو دریافت کرنے کا اعلان کر دیا۔ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت گویا اپنی نوعیت میں ایسی دریافت ہے جیسے کائنات کا راز کھول دیا گیا ہو۔ ایک سائنسدان نے آج اپنے بیان میں کہا،

    ’’دِس اِز فرسٹ ٹائم ایور دیٹ دہ یونیورس ہیز سپوکن ٹُو اَس‘‘

    انسان نے ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہوموسیپیئنز یعنی موجودہ انسان سے پہلی انسان نما نسلوں کے افراد بھی اِس حد تک تو آسمان سے واقف تھے کہ جب وہ اپنی غذا تلاش کرنے اور پیٹ بھرنے کے عمل سے فارغ ہو جاتے تو پھر کسی پتھرسے سرٹکا کر آسمان کی طرف دیکھا کرتے اور اپنی سطح کی حدتک سوچاکرتے۔ رات ہوتی تو ستاروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ آسمان شروع دن سے ہی انسان کے لیے سب سے بڑی مِسٹری رہا ہے۔ پھر ماڈرن مَین (جدید انسان) جو آج سے لگ بھگ پچیس ہزار سال پہلے نمودار ہوا، نے تو باقاعدہ آسمان پر اتنا غور کیا کہ علوم کے دفترکے دفتر کھول ڈالے۔ ابتدائی کانسی کے دور کے انسانوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ آسمان کو ایک بڑا سا اُلٹا پیالہ یا کڑاہی تصور کرتے تھے جو زمین پر اس طرح رکھاہے کہ اُس نے زمین کو ڈھانپ دیا ہے۔ اس میں بہت سے سوراخ ہیں۔ ان سوراخوں سےرات کو روشنی اندر آتی ہےاور کبھی کبھار ان سوراخوں سے پانی اندر آتاہے جو کہ بارش ہے۔

    تاریخ میں مصریوں کے علاوہ بابل وہ شہر ہے جہاں فلکیات پر بے پناہ غوروفکر ہوا۔ بابل میں ہرزیگورات کا مندر چار سوفٹ بلند تھا جہاں سے زہرہ جمال رقاصہ بیدخت نے شاہ یوسیفر کی قباپہن اور ہارُوت مارُوت سے سیکھا ہوا اسم ِ اعظم پڑھ کر پرواز کی اور دُور آسمانوں پر جاکر زہرہ ستارہ بن گئی۔ آج جو زہرہ ستارہ نظر آتا ہے یہ وہی رقاصہ ہے۔

    آسمان کا جادُو ہرانسان کو اُس کے بچپن سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ تب اُسے بچپن سے ہی طرح طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جن کے مطابق چاند میں بیٹھی چرخہ کاتتی بڑھیا سے لے کر دُور ثریا سے آنے والی اُڑن طشتریوں تک کے قصے شامل ہیں۔ انسان کی یہ خواہش کہ وہ کائنات کو جانے، شاید آسمانوں کو جاننے میں چھُپی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آسمانوں کی طرف جانا چاہتا ہے اوراپنے بارے میں نہ جانے کیوں یہی سمجھتا ہے کہ وہ آسمانوں سے ہی آیا ہوا ہے۔

    فزکس نے یہ ذمہ داری قبول کی اور ہمارے طبیعات دانوں نے صرف دو صدیوں کے اندر اندر یہ ثابت کر دیا کہ انسان نہ صرف کائنات کی حقیقت جاننے کا اہل ہے بلکہ کائنات کے کلیجے میں ہاتھ ڈال کر اس میں تبدیلیاں کرسکنے کا بھی اہل ہے۔

    گزشتہ صدی میں آئن سٹائن کا وجود کسی معجزے کی طرح نمودار ہوا اور اس کے بے پناہ دماغ نے بارہا انسانوں کو اِس شک میں مبتلا کر دیا کہ آیا وہ خود انسان ہی تھا یا کسی اور دنیا سے آیا ہوا کوئی ایسا عالی دماغ دیوتا جو اہل ِ زمین کو کائنات کے راز بتانے آیا اور پھر واپس چلا گیا۔ آئن سٹائن نے 1905 میں سپیشل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی اور 1915 میں جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی۔ یہ دونوں نظریہ ہائے اضافیت نہ صرف عجیب و غریب اور محیرالعقول ہیں بلکہ ان کے جاننے اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج پر قابو پانے کی صورت میں انسان اپنی موجودہ انسانی سطح سے یکلخت بلند ہوکر کسی اور نوع میں بدل جانے کی صلاحیت کا اہل بھی ہو سکتا ہے۔

    آج جن گریویٹیشنل ویوز یعنی کشش ثقل کی امواج کی دریافت کا اعلان ہوا ہے یہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی میں بتائی گئی موجیں ہیں۔

    حقیقی واقعہ یوں ہے کہ آئن سٹائن جو محض ایک پیٹنٹ کلرک تھا، ایک دن اپنی کھڑکی کھولے سامنے والی بلند عمارت کو حسبِ معمول یہ سوچتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ اگر کوئی شخص اس عمارت سے نیچے گرے تو وہ کیسا محسوس کریگا؟ بس اتنا سادہ سا سوال اس کے ذہن میں تھا۔

    معاً اسے خیال آیا کہ وہ شخص اپنے آپ کو گرتاہوا محسوس نہیں کرے گا۔

    آئن سٹائن کے ایسا سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اچانک اس گرتے ہوئے شخص کے گرد ایک بڑا سا کمرہ یا لفٹ نما باکس تصور کیا اور سوچا کہ اگر اس شخص کے پیر لفٹ کے فرش پر ہوں تو وہ کیونکر خود کو گرتاہوا محسوس کریگا؟ بس اتنی سوچ آنے کی دیر تھی کہ آئن سٹائن پر کائنات کی فیبرک کا راز کھل گیا۔ آئن سٹائن نے اعلان کیا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی۔ بلکہ ایک لحاظ سے چیزیں اپنی جگہ ہی رہتی ہیں اور زمین اوپر کو اُٹھ کر ان کی طرف لپکتی ہے یا یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ آسمان چیزوں کو زمین کی طرف نیچے کو دھکیلتا ہے۔ کوئی بھی گرتاہوا آبجیکٹ جسے ہم نیوٹن کی فزکس کے مطابق حالت ِ اسراع میں یعنی ایکسیلیریٹڈ سمجھتے ہیں دراصل ایکسیلیریٹڈ ہوتا ہی نہیں ہے۔ مزید سادہ الفاظ میں وہ نیچے کی طرف گرتے ہوئے اپنی رفتار کو مسلسل بڑھا نہیں رہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہم نیوٹن کی فزکس میں سمجھتے تھے۔ بلکہ تصور کیا جائے کہ وہ اپنی جگہ رکا ہوا ہوتاہے اور زمین اوپر کو اُٹھ کر اس کی طرف لپک رہی ہوتی۔ اِسے آئن سٹائن کا ایکوَلینس پرنسپل بھی کہتے ہیں۔ جس کے مطابق نان انرشیل فریم یعنی ایکسلیریٹڈ فریم اور گریوٹیشنل فریم ایک جیسے ہیں۔

    اس کے بعد آئن سٹائن نے جنرل تھیوری جو بنیادی طور پر کشش ثقل یعنی گریوٹی کی ہی تھیوری ہے، پر کام شروع کر دیا اور بالآخر دنیا کو ایک نہایت حیران کن نظریہ کا تحفہ دے کر انسانی علم کی عظمت کو امر کر دیا۔

    آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح سورج زمین اور دیگر سیاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی طرح ہر بڑا آبجیکٹ چھوٹے آبجیکٹس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس کھینچا تانی میں سیارے ستاروں کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی نے اس خیال کو بالکل بدل دیا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بھاری اجسام، ہلکے اجسام کو اپنی طرف نہیں کھینچ رہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات ایک خاص قسم کے ریشوں سے بُن کر بنائی گئی ہے۔ یہ خاص قسم کے ریشے ربربینڈ کی طرح لچکدار ہیں۔ انہیں کھینچا جائے تو لمبے ہوجاتے ہیں اور انہیں اندر کی طرف دھکیلا جائے تو سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ ربڑ کے ان دھاگوں سے کائنات کی فیبرک (کپڑا) بُنا گیا ہے۔ اِس فیبرک کی بُنائی میں وہ دھاگے جو اُفقی ہیں ، وہ سپیس (مکان) کے دھاگے ہیں اور وہ دھاگے جو عمودی ہیں وہ ٹائم (وقت) کے دھاگے ہیں۔ اسی وجہ سے اس فیبرک کا نام سپیس ٹائم فیبرک ہے۔ آپ اگر گوگل میں سپیس ٹائم فیبرک کے الفاظ ڈالیں تو آپ اِس فیبرک کی بے شمار تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ آئن سٹائن نے کہا کہ جب کوئی بھاری بھر کم جسم اس فیبرک میں سے گزرتا ہے تو وہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے اُس جگہ کی فیبرک جو کہ اپنی ماہیت میں ربڑ کی طرح سے لچکدار ہے اور جس کے ریشے ربر بیںڈ کی طرح سے لچکدار ہیں اس بھاری آبجیکٹ کے آس پاس سے سُکڑ جاتی ہے اور اُس آبجیکٹ کے سانچے جیسی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ گندھے ہوئے آٹے میں ایک گیند دبا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس آٹے میں گیند کے لیے سانچہ نما جگہ بن جاتی ہے۔ سپس ٹائم فیبرک میں بھی ایسی ہی سانچہ نما شکلیں بنتی ہیں، جب کوئی جسم اس میں سے گزرتا ہے یا موجود ہوتا ہے تو۔

    قارئین کو یاد ہوگا ہم بچپن میں کانچ کی گولی (بنٹے) کو کسی بڑے سے پیالے میں ڈال کر پیالے کو اس طرح گول گول حرکت دیا کرتے تھے کہ کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گول گول دائرے میں گھومنے لگتی تھی۔ یا دوسری مثال موت کے کنویں میں چلنے والے موٹرسائیکل کی ہے جو تیزرفتار کی وجہ سے گویا دیواروں کے ساتھ چپک جاتا ہے اور اس لیے نیچے نہیں گرتا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ کائنات کی اس فیبرک میں جہاں جہاں بھی ستارے، سیارے یا سیارچے ہیں وہاں وہاں اس فیبرک میں ایک گڑھا سا پڑا ہوا ہے۔ جتنا بھاری کوئی آبجیکٹ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا گڑھا اس فیبرک میں پڑ جاتا ہے۔ یعنی ہمارا سورج جو ایک بہت بڑا اور بھاری آبجیکٹ ہے اس کے اردگرد کی سپیس ٹائم فیبرک نے بھی ویسی شکل اختیار کر رکھی ہے جیسے آٹے میں دبائی ہوئی گیند کے اطراف میں آٹے کی شکل ہوجاتی ہے۔ سورج کی وجہ سے سپیس ٹائم فیبرک میں ایک بہت بڑا گڑھا پیدا ہو گیا ہے۔ اسے گریوٹی ویل
    (Gravity Well)
    یعنی کشش ثقل کا کنواں کہتے ہیں۔ ہماری زمین اور دیگر سیارے اُن کانچ کی گولیوں کی طرح ہیں جو پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گردش کرنے لگتی ہیں۔ یا موت کے کنویں کے ان موٹرسائیکلوں کی طرح ہیں جو موت کے کنویں کی دیواروں پر دوڑتے ہیں۔ سورج کے گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کے کنویں میں زمین ایسی ہی ہے۔ لیکن زمین کے اپنے اطراف میں بھی تو اِس فیبرک کے اندر ایسا ہی ایک گڑھا پیدا ہو رہا ہے۔ ہمارا چاند اُس گڑھے میں پھنسا ہوا ہے۔ اور بالکل ویسی ہی حرکت کر رہا ہے جیسی کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر گردش کے وقت کرتی ہے۔ چاند کے لیے ہماری زمین کا گریوٹی ویل ہی گردش کا باعث ہے۔

    آئن سٹائن نے سپیس ٹائم فیبرک کی جو تصویر فزکس کو دکھائی وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ کیونکہ ربربینڈ جیسی لچک ہونے اور پھر فیبرک میں افقی و عمودی ہر دو طرح کے ریشے ہونے کیوجہ سے پوری کی پوری کائنات کے زمان ومکاں کی ساخت ربڑ کی طرح لچکدار ہوجاتی ہے۔ صرف ربڑ کی طرح نہیں بلکہ کسی سیّال مادے کی طرح یا سمندر کی طرح۔ اس فیبرک میں اشیأ کے گرنے سے موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح سمندر میں بھنور پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح اِس فیبرک میں بھی بھنور پیدا ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ فیبرک سمندر سے بھی کہیں زیادہ لچکدار ہے کیونکہ اگر ہم چاہیں تو کسی طرح سپیس ٹائم فیبرک کے دو دُور دراز کے کناروں کو کھینچ کر ایک دوسرے کے نزدیک لائیں اور وہ لاکھوں نوری سال کےفاصلوں کو یکلخت پاٹ کر ایک دوسرے کے اس طرح قریب آ جائینگے کہ گویا ایک سے چھلانگ لگا کر دوسرے کنارے پر سوار ہوا جا سکے گا۔ عام طور پر اس بات کو ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے۔

    آپ ایک بڑا سا کاغذ یا چارٹ ایک میز پر بچھائیں اور اس پر کافی فاصلوں پر دو دائرے لگائیں۔ فرض کریں آپ نے دو فٹ کے فاصلے پر یہ دائرے لگائے۔ تب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے کا فاصلہ دو فٹ ہے۔ لیکن اگر آپ وہی چارٹ اُٹھا لیں اور اسے فولڈ کر لیں یعنی تہہ کرلیں اور اس طرح تہہ کریں کہ اُس پر لگائے گئے دائروں کے نشان ایک دوسرے کے بالکل پاس آجائیں۔ تب آپ ان میں سوراخ کر دیں تو آپ ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں فوراً داخل ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کاغذ کو تہہ کر دیا۔ اس لیے ان دو دائروں کا فاصلہ اب ایک فٹ تو کیا ایک انچ بھی نہیں رہ گیا۔ اسی طرح سپیس ٹائم فیبرک بھی فولڈ ہوجاتی ہے۔ یا ایک مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ آپ سمندر میں ایک بڑی موج پر سکیٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ موج اُوپر کو اُٹھتی ہے اور بہت بلند ہو جاتی ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ اتنے ہی اوپر کو اُٹھتے اور بلند ہو جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک اور بڑی موج دوسری طرف سے آئی ہے اور وہ بھی اتنی ہی بلند ہے اور آپ چھلانگ لگا کر دوسری موج پر سوار ہو جاتے ہیں۔ تو آپ بہت کم وقت میں سمندر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جمپ کرگئے ہیں۔

    سپس ٹائم فیبرک میں موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ سپیس ٹائم فیبرک میں بھنور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فیبرک میں پیدا ہونے والے بھنور کو ماہرین ِ فزکس وارم ہول
    WORM HOLE
    یعنی کینچوے یا کیڑے کا سوراخ کہتے ہیں۔ موجیں یا بھنور چونکہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک میں پیدا ہو رہے ہیں اس لیے عجیب و غریب چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ یعنی اگر آپ ایک وارم ہول میں ایک طرف سے آج داخل ہوئے ہیں تو امکان ہے کہ آپ دوسری طرف سےنکلیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دور ہو۔ یا پھر اتنا بعید مستقبل ہو کہ آج سے پانچ ہزار سال بعد وغیرہ وغیرہ۔
    CONAN

  2. #2
    CONAN's Avatar
    CONAN is offline Senior Member+
    Last Online
    9th April 2018 @ 05:20 PM
    Join Date
    02 Oct 2007
    Location
    BRISTOL, ENGLAND
    Posts
    83
    Threads
    17
    Credits
    1,129
    Thanked
    2

    Default


    آج دریافت ہونے والی موجوں کو اگرچہ گریوٹی کی موجیں کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو گریوٹی نامی کسی شئے کا وجود نہیں ہے بلکہ یہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک ہے جس کا وجود ہے اور جو مادے کے قریب اس کی شکل کا سانچہ سا بنا لیتی ہیں اور وہی سانچہ کبھی کبھی گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کا کنواں کہلاتا ہے جہاں دیواروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے آبجیکٹس گردش کرتے رہتے ہیں، جسے ہم گریوٹی سجھتے ہیں۔ یہ موجیں چونکہ پوری کائنات میں ہیں اور ہروقت ، ہرطرح کی پیدا ہو رہی ہیں اس لیے یہ جس بھی مادی آبجیکٹ کے پاس سے گزرتی ہیں وہ آبجیکٹ بھی کسی لچکدار ربڑ کی گیند کی طرح ان موجوں کے اثر میں تھوڑا سا سُکڑتا یا پھیلتا رہتا ہے۔ سائنسدانوں نے آئن سٹائن کی بات مانتے ہوئے فرض کیا کہ ز میں بھی ان موجوں کے اثر میں کبھی سُکڑ یا پھیل جاتی ہو گی۔ اسی طرح زمین پر موجود تمام اشیأ بشمول انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان موجوں کے اثر میں ضرور تھوڑے سے سُکڑ یا پھیل جاتے ہونگے۔ یہ بڑی مزیدار سچوئشن ہے۔ یعنی فرض کریں کسی دور دراز کے بلیک ہول سے ایک گریوٹی ویو آئی اور زمین سے ٹکرائی تو زمین کسی لچکدار گیند کی طرح تھوڑی سی سکڑ گئی اور اس پر موجود چیزیں بھی۔ فرض کریں آپ اس وقت تھوڑے سے لمبے اور پتلے ہو گئے۔ لیکن آپ کو پتہ نہ چلا کیونکہ یہ تبدیلی بہت باریک ہوتی ہے۔

    گویوٹی ویوز کو دریافت کیسے کیا گیا؟ یہ سوال دلچسپ ہے ۔ وہ سائنسی ادارہ جس نے اعلان کیا کہ گریوٹی ویوز کو دریافت کرلیا گیا ہے اس کانام لائیگو
    Ligo
    ہے۔ لائیگو کا طریقہ کار نہایت سادہ ہے جو کسی بھی انسان کو آسانی سے سمجھ آ سکتا ہے۔ لائگو لیبارٹری دراصل دو بڑے بلکہ لمبے پائپس
    Pipes
    پر مشتمل ہے۔ ان پائپس کو انگریزی کے حرف L کی شکل میں جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا دونوں پائپوں کا ایک ایک سرا آپس میں جڑا ہے جبکہ دوسرا سرا کھلا ہے اور ایل کی شکل بنا رہاہے۔ یہ دونوں پائپس لمبائی میں بالکل برابر ہیں۔ دنیا میں لائیگو جیسے برابر پائپ کے دو ٹکڑوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ لائگو کے پائپس کی لمبائی کو ایک ایٹم کے چھوٹے ذرے پروٹان سے بھی کہیں زیادہ باریک سطح پر ایک دوسرے سے لمبا یا چھوٹا نہیں رہنے دیا گیا۔ دونوں پائپس آخری حد تک ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ دونوں پائپس جہاں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں وہاں سے روشنی کی ایک شعار فائر کی جاتی ہے۔ جو ایک ہی وقت میں بھاگتی ہوئی پائپ کے دوسرے سروں سے ٹکراتی اور پھر وہاں لگے اعلٰی درجے کے آئنوں سے منعکس ہوکر واپس آتی ہے اور پھر اُسی مقام جہاں سے چھوڑی گئی تھی پر ایک دوسرے کو کراس کرتی ہے۔ سائنس دانوں نے سوچا کہ اگر دونوں پائپس کو اس طرح برابر رکھا جائے کہ وہ شعاع جب واپس آئے تو دونوں طرف کی شعاعیں آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کینسل کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کامیابی سے جائزہ لیا جاتا رہا کہ وہ آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کیسنل کررہی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ وہ شعاعیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انٹرفئرنس پیٹرن بنالیتیں اور ایک دوسرے کو کینسل نہیں کرتیں بلکہ ایک نئی موج کی صورت باہر نصب ایک الگ آئنے پر اپنی موجودگی کا اظہا کرتیں۔ یہی بات اہم تھی۔ یہ سوال کہ جب دونوں پائپوں کی لمبائی کی پیمائش اتنی باریک حد تک ایک دوسرے کے برابر ہے تو پھر ایسا کیوں ہوجاتاہے کہ وہاں شعاعیں ایک دوسرے سےٹکرا کر ایک دوسرے کو کینسل کرنے کی بجائے مزید شعاعیں بنادیتی ہیں تو اندازہ لگایا گیا کہ ضرورکسی وجہ سے یہ دونوں پائپس یا تو اچانک لمبے ہوجاتے ہیں یا چھوٹے۔ سائنسدان جب کسی شئے کی پیمائش کرتے ہیں تو آخری حد تک احتیاط کرتے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسائل ریاضی سے حل کیے جائیں۔ چنانچہ پیمائشیں انتہائی احتیاط سے کرنے کے باوجود بھی جب ایسا ہوتا رہا کہ دونوں پائپوں کی شعاعیں کبھی کبھار انٹرفئرنس پیٹرن بناتیں تو فیصلہ کیا گیا یہ پائپ کسی وقت چھوٹے ہو جاتے ہیں یا لمبے اور ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ان پر سے گریوٹی کی ویو گزر جاتی ہے۔

    لائگو کا رزلٹ حتمی طور پر گریوٹیشنل ویو ہی ہے، اس بات کا ثبوت کیسے حاصل کیا جائے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے لائیگو کی ایک جڑواں لیبارٹری لگ بھگ نوے کلومیٹر کے فاصلے پر الگ بنائی گئی۔ اور طے پایا کہ اگر ایک ہی وقت میں ایک ہی طرز کی تبدیلی دونوں لیبارٹریوں نے نوٹ کی تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ یہ کوئی بڑی گریویشنل ویو ہی تھی جس کی وجہ سے ایک ہی وقت میں نوے کلومیٹر کے فاصلے پر دو ایک جیسے پائپ مختصر وقت کے لیے ایک ساتھ چھوٹے یا لمبے ہوئے۔ گیارہ فروری 2016 وہ عظیم دن ہے جب واقعی ایسا ہوگیا۔ جب واقعی دونوں لیبارٹریز نے ہی ایک وقت میں ان پائپوں کی پیمائش میں ایک جیسی تبدیلی نوٹ کی۔ فوری طور پر خبر آئی ،

    On 11 February 2016, the LIGO collaboration announced the detection of gravitational waves, from a signal detected at 09.51 UTC on 14 September 2015of two ~30 solar mass black holes merging together about 1.3 billion light-years from Earth

    یہ گویوٹیشنل ویو دو بڑے بلیک ہول کے آپس میں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہونے سے پیدا ہو رہی ہے اور یہ موج کائنات کے فیبرک میں سفر کرتی ہوئی کسی پانی کی موج کی طرح زمین پر آ رہی ہے۔ جسے ہم نے لائیگو میں ڈیٹیکٹ کر لیا ہے۔

    گریوٹیشنل ویو کی دریافت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ تصور کریں جب ہم نے روشنی کی شعاع دریافت کی تو آج تک اس سے کیا کچھ کر لیا؟ ہم جانتے ہیں کہ برقی مقناطیسی لہروں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کنورٹ کیا جا سکتا ہے اور ان کے ذریعے پیغام رسانی کی جا سکتی ہے۔ اگر کل کو گریوٹیشنل ویو کو بھی برقی مقناطیسی لہروں کے ساتھ کنورٹ کیا جانے لگا یا گریوٹیشنل ویوز کے ذریعے معلومات کی ترسیل یا دیگر ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کیا کیا امکانات ہیں؟

    جونہی ان ویو کی دریافت کا اعلان ہوا مجھے جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ اب اگر ٹائم ٹریول ممکن نہیں بھی ہوسکتا تب بھی ماضی اور مستقبل میں دیکھنا ضرور ممکن ہو جائیگا۔ تصور کریں کہ آپ ٹرائے کی جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو برقی مقناطیسی لہروں کو گریوٹیشنل ویو کے ساتھ کنورٹ کرکے آپ اپنے ٹی وی کی سکرین پر براہِ راست اس جنگ کے اصلی مناظر دیکھ سکنے کے اہل ہونگے۔

    ایک سوال کہ آئن سٹائن کو کسی بلند عمارت سے گرتے ہوئے شخص کا سوچ کر یہ خیال ہی کیوں آیا کہ کائنات ایک فیبرک ہے یعنی کسی کپڑے کی طرح سے بُنی ہوئی ہے اور اس کے ریشوں کا نام ہے سپیس اینڈ ٹائم؟

    یہ سوال دلچسپ ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس پر لگ مضمون لکھنے کے دن بھی یہی ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    تحریر ۔۔۔ ادریس آزاد

  3. #3
    Join Date
    18 Aug 2011
    Age
    37
    Gender
    Male
    Posts
    434
    Threads
    37
    Credits
    1,770
    Thanked
    26

    Default

    بہت زبردست معلوماتی مضمون ہے. اس کام کو جاری رکھیے.
    اب معمولی سی تنقید.

    مضمون انگریزی سے ترجمعہ شدہ لگتا ہے, اگر آپ اصلی ماخذ بھی شامل کر دیتے تو بہت اچھا ہوتا.

    Sent from my QMobile i6i using Tapatalk

  4. #4
    Net_master is offline Member
    Last Online
    17th March 2022 @ 07:56 PM
    Join Date
    20 Mar 2015
    Location
    Pindi bhattian
    Age
    28
    Gender
    Male
    Posts
    661
    Threads
    62
    Thanked
    18

    Default

    Wah yaar good

    Sent from my QMobile i2 using Tapatalk

  5. #5
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,910
    Threads
    482
    Credits
    148,896
    Thanked
    970

    Default

    Thanks for Sharing

  6. #6
    Komal90 is offline Senior Member+
    Last Online
    26th June 2019 @ 03:07 PM
    Join Date
    11 Feb 2019
    Age
    23
    Gender
    Female
    Posts
    52
    Threads
    2
    Credits
    202
    Thanked
    0

    Default

    nice post

  7. #7
    Alone Men's Avatar
    Alone Men is offline Senior Member+
    Last Online
    30th July 2019 @ 09:07 PM
    Join Date
    28 Jun 2019
    Location
    G-9/2,Islamabad
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    228
    Threads
    21
    Credits
    1,266
    Thanked
    25

    Default

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    بہت شاندار تھریڈ کا اشتراک کیا ہے
    آپ کا بہت بہت شکریہ

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



Similar Threads

  1. Replies: 29
    Last Post: 27th March 2022, 12:44 PM
  2. Replies: 5
    Last Post: 26th July 2016, 11:59 AM
  3. Replies: 8
    Last Post: 16th August 2009, 12:09 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •