آج دریافت ہونے والی موجوں کو اگرچہ گریوٹی کی موجیں کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو گریوٹی نامی کسی شئے کا وجود نہیں ہے بلکہ یہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک ہے جس کا وجود ہے اور جو مادے کے قریب اس کی شکل کا سانچہ سا بنا لیتی ہیں اور وہی سانچہ کبھی کبھی گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کا کنواں کہلاتا ہے جہاں دیواروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے آبجیکٹس گردش کرتے رہتے ہیں، جسے ہم گریوٹی سجھتے ہیں۔ یہ موجیں چونکہ پوری کائنات میں ہیں اور ہروقت ، ہرطرح کی پیدا ہو رہی ہیں اس لیے یہ جس بھی مادی آبجیکٹ کے پاس سے گزرتی ہیں وہ آبجیکٹ بھی کسی لچکدار ربڑ کی گیند کی طرح ان موجوں کے اثر میں تھوڑا سا سُکڑتا یا پھیلتا رہتا ہے۔ سائنسدانوں نے آئن سٹائن کی بات مانتے ہوئے فرض کیا کہ ز میں بھی ان موجوں کے اثر میں کبھی سُکڑ یا پھیل جاتی ہو گی۔ اسی طرح زمین پر موجود تمام اشیأ بشمول انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان موجوں کے اثر میں ضرور تھوڑے سے سُکڑ یا پھیل جاتے ہونگے۔ یہ بڑی مزیدار سچوئشن ہے۔ یعنی فرض کریں کسی دور دراز کے بلیک ہول سے ایک گریوٹی ویو آئی اور زمین سے ٹکرائی تو زمین کسی لچکدار گیند کی طرح تھوڑی سی سکڑ گئی اور اس پر موجود چیزیں بھی۔ فرض کریں آپ اس وقت تھوڑے سے لمبے اور پتلے ہو گئے۔ لیکن آپ کو پتہ نہ چلا کیونکہ یہ تبدیلی بہت باریک ہوتی ہے۔
گویوٹی ویوز کو دریافت کیسے کیا گیا؟ یہ سوال دلچسپ ہے ۔ وہ سائنسی ادارہ جس نے اعلان کیا کہ گریوٹی ویوز کو دریافت کرلیا گیا ہے اس کانام لائیگو
Ligo
ہے۔ لائیگو کا طریقہ کار نہایت سادہ ہے جو کسی بھی انسان کو آسانی سے سمجھ آ سکتا ہے۔ لائگو لیبارٹری دراصل دو بڑے بلکہ لمبے پائپس
Pipes
پر مشتمل ہے۔ ان پائپس کو انگریزی کے حرف L کی شکل میں جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا دونوں پائپوں کا ایک ایک سرا آپس میں جڑا ہے جبکہ دوسرا سرا کھلا ہے اور ایل کی شکل بنا رہاہے۔ یہ دونوں پائپس لمبائی میں بالکل برابر ہیں۔ دنیا میں لائیگو جیسے برابر پائپ کے دو ٹکڑوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ لائگو کے پائپس کی لمبائی کو ایک ایٹم کے چھوٹے ذرے پروٹان سے بھی کہیں زیادہ باریک سطح پر ایک دوسرے سے لمبا یا چھوٹا نہیں رہنے دیا گیا۔ دونوں پائپس آخری حد تک ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ دونوں پائپس جہاں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں وہاں سے روشنی کی ایک شعار فائر کی جاتی ہے۔ جو ایک ہی وقت میں بھاگتی ہوئی پائپ کے دوسرے سروں سے ٹکراتی اور پھر وہاں لگے اعلٰی درجے کے آئنوں سے منعکس ہوکر واپس آتی ہے اور پھر اُسی مقام جہاں سے چھوڑی گئی تھی پر ایک دوسرے کو کراس کرتی ہے۔ سائنس دانوں نے سوچا کہ اگر دونوں پائپس کو اس طرح برابر رکھا جائے کہ وہ شعاع جب واپس آئے تو دونوں طرف کی شعاعیں آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کینسل کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کامیابی سے جائزہ لیا جاتا رہا کہ وہ آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کیسنل کررہی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ وہ شعاعیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انٹرفئرنس پیٹرن بنالیتیں اور ایک دوسرے کو کینسل نہیں کرتیں بلکہ ایک نئی موج کی صورت باہر نصب ایک الگ آئنے پر اپنی موجودگی کا اظہا کرتیں۔ یہی بات اہم تھی۔ یہ سوال کہ جب دونوں پائپوں کی لمبائی کی پیمائش اتنی باریک حد تک ایک دوسرے کے برابر ہے تو پھر ایسا کیوں ہوجاتاہے کہ وہاں شعاعیں ایک دوسرے سےٹکرا کر ایک دوسرے کو کینسل کرنے کی بجائے مزید شعاعیں بنادیتی ہیں تو اندازہ لگایا گیا کہ ضرورکسی وجہ سے یہ دونوں پائپس یا تو اچانک لمبے ہوجاتے ہیں یا چھوٹے۔ سائنسدان جب کسی شئے کی پیمائش کرتے ہیں تو آخری حد تک احتیاط کرتے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسائل ریاضی سے حل کیے جائیں۔ چنانچہ پیمائشیں انتہائی احتیاط سے کرنے کے باوجود بھی جب ایسا ہوتا رہا کہ دونوں پائپوں کی شعاعیں کبھی کبھار انٹرفئرنس پیٹرن بناتیں تو فیصلہ کیا گیا یہ پائپ کسی وقت چھوٹے ہو جاتے ہیں یا لمبے اور ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ان پر سے گریوٹی کی ویو گزر جاتی ہے۔
لائگو کا رزلٹ حتمی طور پر گریوٹیشنل ویو ہی ہے، اس بات کا ثبوت کیسے حاصل کیا جائے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے لائیگو کی ایک جڑواں لیبارٹری لگ بھگ نوے کلومیٹر کے فاصلے پر الگ بنائی گئی۔ اور طے پایا کہ اگر ایک ہی وقت میں ایک ہی طرز کی تبدیلی دونوں لیبارٹریوں نے نوٹ کی تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ یہ کوئی بڑی گریویشنل ویو ہی تھی جس کی وجہ سے ایک ہی وقت میں نوے کلومیٹر کے فاصلے پر دو ایک جیسے پائپ مختصر وقت کے لیے ایک ساتھ چھوٹے یا لمبے ہوئے۔ گیارہ فروری 2016 وہ عظیم دن ہے جب واقعی ایسا ہوگیا۔ جب واقعی دونوں لیبارٹریز نے ہی ایک وقت میں ان پائپوں کی پیمائش میں ایک جیسی تبدیلی نوٹ کی۔ فوری طور پر خبر آئی ،
On 11 February 2016, the LIGO collaboration announced the detection of gravitational waves, from a signal detected at 09.51 UTC on 14 September 2015of two ~30 solar mass black holes merging together about 1.3 billion light-years from Earth
یہ گویوٹیشنل ویو دو بڑے بلیک ہول کے آپس میں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہونے سے پیدا ہو رہی ہے اور یہ موج کائنات کے فیبرک میں سفر کرتی ہوئی کسی پانی کی موج کی طرح زمین پر آ رہی ہے۔ جسے ہم نے لائیگو میں ڈیٹیکٹ کر لیا ہے۔
گریوٹیشنل ویو کی دریافت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ تصور کریں جب ہم نے روشنی کی شعاع دریافت کی تو آج تک اس سے کیا کچھ کر لیا؟ ہم جانتے ہیں کہ برقی مقناطیسی لہروں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کنورٹ کیا جا سکتا ہے اور ان کے ذریعے پیغام رسانی کی جا سکتی ہے۔ اگر کل کو گریوٹیشنل ویو کو بھی برقی مقناطیسی لہروں کے ساتھ کنورٹ کیا جانے لگا یا گریوٹیشنل ویوز کے ذریعے معلومات کی ترسیل یا دیگر ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کیا کیا امکانات ہیں؟
جونہی ان ویو کی دریافت کا اعلان ہوا مجھے جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ اب اگر ٹائم ٹریول ممکن نہیں بھی ہوسکتا تب بھی ماضی اور مستقبل میں دیکھنا ضرور ممکن ہو جائیگا۔ تصور کریں کہ آپ ٹرائے کی جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو برقی مقناطیسی لہروں کو گریوٹیشنل ویو کے ساتھ کنورٹ کرکے آپ اپنے ٹی وی کی سکرین پر براہِ راست اس جنگ کے اصلی مناظر دیکھ سکنے کے اہل ہونگے۔
ایک سوال کہ آئن سٹائن کو کسی بلند عمارت سے گرتے ہوئے شخص کا سوچ کر یہ خیال ہی کیوں آیا کہ کائنات ایک فیبرک ہے یعنی کسی کپڑے کی طرح سے بُنی ہوئی ہے اور اس کے ریشوں کا نام ہے سپیس اینڈ ٹائم؟
یہ سوال دلچسپ ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس پر لگ مضمون لکھنے کے دن بھی یہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ۔۔۔ ادریس آزاد
Bookmarks