گریوٹیشنل ویو کیا ہے؟ (اجمالی جائزہ
۔۔
گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت، تاریخ ِ علوم ِ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ



آج کا دن علوم انسانی کی تاریخ میں سب سے اہم ہے۔ آج لائیگو نے گریویٹیشنل ویو دریافت کرنے کا اعلان کر دیا۔ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت گویا اپنی نوعیت میں ایسی دریافت ہے جیسے کائنات کا راز کھول دیا گیا ہو۔ ایک سائنسدان نے آج اپنے بیان میں کہا،

’’دِس اِز فرسٹ ٹائم ایور دیٹ دہ یونیورس ہیز سپوکن ٹُو اَس‘‘

انسان نے ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہوموسیپیئنز یعنی موجودہ انسان سے پہلی انسان نما نسلوں کے افراد بھی اِس حد تک تو آسمان سے واقف تھے کہ جب وہ اپنی غذا تلاش کرنے اور پیٹ بھرنے کے عمل سے فارغ ہو جاتے تو پھر کسی پتھرسے سرٹکا کر آسمان کی طرف دیکھا کرتے اور اپنی سطح کی حدتک سوچاکرتے۔ رات ہوتی تو ستاروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ آسمان شروع دن سے ہی انسان کے لیے سب سے بڑی مِسٹری رہا ہے۔ پھر ماڈرن مَین (جدید انسان) جو آج سے لگ بھگ پچیس ہزار سال پہلے نمودار ہوا، نے تو باقاعدہ آسمان پر اتنا غور کیا کہ علوم کے دفترکے دفتر کھول ڈالے۔ ابتدائی کانسی کے دور کے انسانوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ آسمان کو ایک بڑا سا اُلٹا پیالہ یا کڑاہی تصور کرتے تھے جو زمین پر اس طرح رکھاہے کہ اُس نے زمین کو ڈھانپ دیا ہے۔ اس میں بہت سے سوراخ ہیں۔ ان سوراخوں سےرات کو روشنی اندر آتی ہےاور کبھی کبھار ان سوراخوں سے پانی اندر آتاہے جو کہ بارش ہے۔

تاریخ میں مصریوں کے علاوہ بابل وہ شہر ہے جہاں فلکیات پر بے پناہ غوروفکر ہوا۔ بابل میں ہرزیگورات کا مندر چار سوفٹ بلند تھا جہاں سے زہرہ جمال رقاصہ بیدخت نے شاہ یوسیفر کی قباپہن اور ہارُوت مارُوت سے سیکھا ہوا اسم ِ اعظم پڑھ کر پرواز کی اور دُور آسمانوں پر جاکر زہرہ ستارہ بن گئی۔ آج جو زہرہ ستارہ نظر آتا ہے یہ وہی رقاصہ ہے۔

آسمان کا جادُو ہرانسان کو اُس کے بچپن سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ تب اُسے بچپن سے ہی طرح طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جن کے مطابق چاند میں بیٹھی چرخہ کاتتی بڑھیا سے لے کر دُور ثریا سے آنے والی اُڑن طشتریوں تک کے قصے شامل ہیں۔ انسان کی یہ خواہش کہ وہ کائنات کو جانے، شاید آسمانوں کو جاننے میں چھُپی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آسمانوں کی طرف جانا چاہتا ہے اوراپنے بارے میں نہ جانے کیوں یہی سمجھتا ہے کہ وہ آسمانوں سے ہی آیا ہوا ہے۔

فزکس نے یہ ذمہ داری قبول کی اور ہمارے طبیعات دانوں نے صرف دو صدیوں کے اندر اندر یہ ثابت کر دیا کہ انسان نہ صرف کائنات کی حقیقت جاننے کا اہل ہے بلکہ کائنات کے کلیجے میں ہاتھ ڈال کر اس میں تبدیلیاں کرسکنے کا بھی اہل ہے۔

گزشتہ صدی میں آئن سٹائن کا وجود کسی معجزے کی طرح نمودار ہوا اور اس کے بے پناہ دماغ نے بارہا انسانوں کو اِس شک میں مبتلا کر دیا کہ آیا وہ خود انسان ہی تھا یا کسی اور دنیا سے آیا ہوا کوئی ایسا عالی دماغ دیوتا جو اہل ِ زمین کو کائنات کے راز بتانے آیا اور پھر واپس چلا گیا۔ آئن سٹائن نے 1905 میں سپیشل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی اور 1915 میں جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی۔ یہ دونوں نظریہ ہائے اضافیت نہ صرف عجیب و غریب اور محیرالعقول ہیں بلکہ ان کے جاننے اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج پر قابو پانے کی صورت میں انسان اپنی موجودہ انسانی سطح سے یکلخت بلند ہوکر کسی اور نوع میں بدل جانے کی صلاحیت کا اہل بھی ہو سکتا ہے۔

آج جن گریویٹیشنل ویوز یعنی کشش ثقل کی امواج کی دریافت کا اعلان ہوا ہے یہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی میں بتائی گئی موجیں ہیں۔

حقیقی واقعہ یوں ہے کہ آئن سٹائن جو محض ایک پیٹنٹ کلرک تھا، ایک دن اپنی کھڑکی کھولے سامنے والی بلند عمارت کو حسبِ معمول یہ سوچتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ اگر کوئی شخص اس عمارت سے نیچے گرے تو وہ کیسا محسوس کریگا؟ بس اتنا سادہ سا سوال اس کے ذہن میں تھا۔

معاً اسے خیال آیا کہ وہ شخص اپنے آپ کو گرتاہوا محسوس نہیں کرے گا۔

آئن سٹائن کے ایسا سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اچانک اس گرتے ہوئے شخص کے گرد ایک بڑا سا کمرہ یا لفٹ نما باکس تصور کیا اور سوچا کہ اگر اس شخص کے پیر لفٹ کے فرش پر ہوں تو وہ کیونکر خود کو گرتاہوا محسوس کریگا؟ بس اتنی سوچ آنے کی دیر تھی کہ آئن سٹائن پر کائنات کی فیبرک کا راز کھل گیا۔ آئن سٹائن نے اعلان کیا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی۔ بلکہ ایک لحاظ سے چیزیں اپنی جگہ ہی رہتی ہیں اور زمین اوپر کو اُٹھ کر ان کی طرف لپکتی ہے یا یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ آسمان چیزوں کو زمین کی طرف نیچے کو دھکیلتا ہے۔ کوئی بھی گرتاہوا آبجیکٹ جسے ہم نیوٹن کی فزکس کے مطابق حالت ِ اسراع میں یعنی ایکسیلیریٹڈ سمجھتے ہیں دراصل ایکسیلیریٹڈ ہوتا ہی نہیں ہے۔ مزید سادہ الفاظ میں وہ نیچے کی طرف گرتے ہوئے اپنی رفتار کو مسلسل بڑھا نہیں رہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہم نیوٹن کی فزکس میں سمجھتے تھے۔ بلکہ تصور کیا جائے کہ وہ اپنی جگہ رکا ہوا ہوتاہے اور زمین اوپر کو اُٹھ کر اس کی طرف لپک رہی ہوتی۔ اِسے آئن سٹائن کا ایکوَلینس پرنسپل بھی کہتے ہیں۔ جس کے مطابق نان انرشیل فریم یعنی ایکسلیریٹڈ فریم اور گریوٹیشنل فریم ایک جیسے ہیں۔

اس کے بعد آئن سٹائن نے جنرل تھیوری جو بنیادی طور پر کشش ثقل یعنی گریوٹی کی ہی تھیوری ہے، پر کام شروع کر دیا اور بالآخر دنیا کو ایک نہایت حیران کن نظریہ کا تحفہ دے کر انسانی علم کی عظمت کو امر کر دیا۔

آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح سورج زمین اور دیگر سیاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی طرح ہر بڑا آبجیکٹ چھوٹے آبجیکٹس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس کھینچا تانی میں سیارے ستاروں کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی نے اس خیال کو بالکل بدل دیا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بھاری اجسام، ہلکے اجسام کو اپنی طرف نہیں کھینچ رہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات ایک خاص قسم کے ریشوں سے بُن کر بنائی گئی ہے۔ یہ خاص قسم کے ریشے ربربینڈ کی طرح لچکدار ہیں۔ انہیں کھینچا جائے تو لمبے ہوجاتے ہیں اور انہیں اندر کی طرف دھکیلا جائے تو سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ ربڑ کے ان دھاگوں سے کائنات کی فیبرک (کپڑا) بُنا گیا ہے۔ اِس فیبرک کی بُنائی میں وہ دھاگے جو اُفقی ہیں ، وہ سپیس (مکان) کے دھاگے ہیں اور وہ دھاگے جو عمودی ہیں وہ ٹائم (وقت) کے دھاگے ہیں۔ اسی وجہ سے اس فیبرک کا نام سپیس ٹائم فیبرک ہے۔ آپ اگر گوگل میں سپیس ٹائم فیبرک کے الفاظ ڈالیں تو آپ اِس فیبرک کی بے شمار تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ آئن سٹائن نے کہا کہ جب کوئی بھاری بھر کم جسم اس فیبرک میں سے گزرتا ہے تو وہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے اُس جگہ کی فیبرک جو کہ اپنی ماہیت میں ربڑ کی طرح سے لچکدار ہے اور جس کے ریشے ربر بیںڈ کی طرح سے لچکدار ہیں اس بھاری آبجیکٹ کے آس پاس سے سُکڑ جاتی ہے اور اُس آبجیکٹ کے سانچے جیسی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ گندھے ہوئے آٹے میں ایک گیند دبا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس آٹے میں گیند کے لیے سانچہ نما جگہ بن جاتی ہے۔ سپس ٹائم فیبرک میں بھی ایسی ہی سانچہ نما شکلیں بنتی ہیں، جب کوئی جسم اس میں سے گزرتا ہے یا موجود ہوتا ہے تو۔

قارئین کو یاد ہوگا ہم بچپن میں کانچ کی گولی (بنٹے) کو کسی بڑے سے پیالے میں ڈال کر پیالے کو اس طرح گول گول حرکت دیا کرتے تھے کہ کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گول گول دائرے میں گھومنے لگتی تھی۔ یا دوسری مثال موت کے کنویں میں چلنے والے موٹرسائیکل کی ہے جو تیزرفتار کی وجہ سے گویا دیواروں کے ساتھ چپک جاتا ہے اور اس لیے نیچے نہیں گرتا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ کائنات کی اس فیبرک میں جہاں جہاں بھی ستارے، سیارے یا سیارچے ہیں وہاں وہاں اس فیبرک میں ایک گڑھا سا پڑا ہوا ہے۔ جتنا بھاری کوئی آبجیکٹ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا گڑھا اس فیبرک میں پڑ جاتا ہے۔ یعنی ہمارا سورج جو ایک بہت بڑا اور بھاری آبجیکٹ ہے اس کے اردگرد کی سپیس ٹائم فیبرک نے بھی ویسی شکل اختیار کر رکھی ہے جیسے آٹے میں دبائی ہوئی گیند کے اطراف میں آٹے کی شکل ہوجاتی ہے۔ سورج کی وجہ سے سپیس ٹائم فیبرک میں ایک بہت بڑا گڑھا پیدا ہو گیا ہے۔ اسے گریوٹی ویل
(Gravity Well)
یعنی کشش ثقل کا کنواں کہتے ہیں۔ ہماری زمین اور دیگر سیارے اُن کانچ کی گولیوں کی طرح ہیں جو پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گردش کرنے لگتی ہیں۔ یا موت کے کنویں کے ان موٹرسائیکلوں کی طرح ہیں جو موت کے کنویں کی دیواروں پر دوڑتے ہیں۔ سورج کے گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کے کنویں میں زمین ایسی ہی ہے۔ لیکن زمین کے اپنے اطراف میں بھی تو اِس فیبرک کے اندر ایسا ہی ایک گڑھا پیدا ہو رہا ہے۔ ہمارا چاند اُس گڑھے میں پھنسا ہوا ہے۔ اور بالکل ویسی ہی حرکت کر رہا ہے جیسی کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر گردش کے وقت کرتی ہے۔ چاند کے لیے ہماری زمین کا گریوٹی ویل ہی گردش کا باعث ہے۔

آئن سٹائن نے سپیس ٹائم فیبرک کی جو تصویر فزکس کو دکھائی وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ کیونکہ ربربینڈ جیسی لچک ہونے اور پھر فیبرک میں افقی و عمودی ہر دو طرح کے ریشے ہونے کیوجہ سے پوری کی پوری کائنات کے زمان ومکاں کی ساخت ربڑ کی طرح لچکدار ہوجاتی ہے۔ صرف ربڑ کی طرح نہیں بلکہ کسی سیّال مادے کی طرح یا سمندر کی طرح۔ اس فیبرک میں اشیأ کے گرنے سے موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح سمندر میں بھنور پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح اِس فیبرک میں بھی بھنور پیدا ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ فیبرک سمندر سے بھی کہیں زیادہ لچکدار ہے کیونکہ اگر ہم چاہیں تو کسی طرح سپیس ٹائم فیبرک کے دو دُور دراز کے کناروں کو کھینچ کر ایک دوسرے کے نزدیک لائیں اور وہ لاکھوں نوری سال کےفاصلوں کو یکلخت پاٹ کر ایک دوسرے کے اس طرح قریب آ جائینگے کہ گویا ایک سے چھلانگ لگا کر دوسرے کنارے پر سوار ہوا جا سکے گا۔ عام طور پر اس بات کو ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے۔

آپ ایک بڑا سا کاغذ یا چارٹ ایک میز پر بچھائیں اور اس پر کافی فاصلوں پر دو دائرے لگائیں۔ فرض کریں آپ نے دو فٹ کے فاصلے پر یہ دائرے لگائے۔ تب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے کا فاصلہ دو فٹ ہے۔ لیکن اگر آپ وہی چارٹ اُٹھا لیں اور اسے فولڈ کر لیں یعنی تہہ کرلیں اور اس طرح تہہ کریں کہ اُس پر لگائے گئے دائروں کے نشان ایک دوسرے کے بالکل پاس آجائیں۔ تب آپ ان میں سوراخ کر دیں تو آپ ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں فوراً داخل ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کاغذ کو تہہ کر دیا۔ اس لیے ان دو دائروں کا فاصلہ اب ایک فٹ تو کیا ایک انچ بھی نہیں رہ گیا۔ اسی طرح سپیس ٹائم فیبرک بھی فولڈ ہوجاتی ہے۔ یا ایک مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ آپ سمندر میں ایک بڑی موج پر سکیٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ موج اُوپر کو اُٹھتی ہے اور بہت بلند ہو جاتی ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ اتنے ہی اوپر کو اُٹھتے اور بلند ہو جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک اور بڑی موج دوسری طرف سے آئی ہے اور وہ بھی اتنی ہی بلند ہے اور آپ چھلانگ لگا کر دوسری موج پر سوار ہو جاتے ہیں۔ تو آپ بہت کم وقت میں سمندر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جمپ کرگئے ہیں۔

سپس ٹائم فیبرک میں موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ سپیس ٹائم فیبرک میں بھنور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فیبرک میں پیدا ہونے والے بھنور کو ماہرین ِ فزکس وارم ہول
WORM HOLE
یعنی کینچوے یا کیڑے کا سوراخ کہتے ہیں۔ موجیں یا بھنور چونکہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک میں پیدا ہو رہے ہیں اس لیے عجیب و غریب چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ یعنی اگر آپ ایک وارم ہول میں ایک طرف سے آج داخل ہوئے ہیں تو امکان ہے کہ آپ دوسری طرف سےنکلیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دور ہو۔ یا پھر اتنا بعید مستقبل ہو کہ آج سے پانچ ہزار سال بعد وغیرہ وغیرہ۔