عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں اداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھ وہ بھی
ہم اپنےزعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گماں تھا یہ بھی قیاس تھا وہ بھی
کہاں اب غم دنیا کہ اب غم جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ راس تھا وہ بھی
فراز تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی
Bookmarks