اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کیوں پیدا کیا؟

وہ مخلوق کو رزق کیوں دیتا ہے؟

وہ مخلوق کو موت کیوں دیتا ہے؟

اور موت کے بعد وہ انہیں زندہ کیوں کرے گا؟

یہ چار سوالات ہیں، ان کا جواب جاننے سے پہلے وہ پورا واقعہ سنیے جو ان سوالات اور جوابات کا سبب بنا۔

احمد بن حرب ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ عبادت اور تقویٰ ان کی شعار اور پہچان تھی۔ ان کا ایک مجوسی پڑوسی تھا، جس کا نام بہرام تھا۔ وہ مجوسی بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا، اس کا مال دوردراز کے علاقوں میں لے جایا جاتا تھا،اس کا ایک شریک بھی تھاچنانچہ ایک بار اس کا شریک مال لے کر کہیں جارہاتھا کہ راستے میں سب مال ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔

غم کے اس موقع پر شیخ احمد بن حرب نے اپنے دوستوں سے کہا کہ چلو اپنے اس پڑوسی سے اظہار افسوس کرآئیں کہ ان کا بڑا نقصان ہوا ہے اور پڑوسی ہونے کے ناطے اسے تسلی دینا اور اس کی خبرگیری کرنا ہمارا حق ہے۔ جب شیخ اپنے دوستوں سمیت اس کے دروازے پر پہنچے تواس مجوسی نے ان کا استقبال کیا، شیخ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بٹھادیا۔ اس مجوسی کے دل میں یہ بات آئی کہ شاید شیخ بھوک وغیرہ کی تنگی کی وجہ سے اس کے پاس آئیں ہیں، کیوں کہ ان دِنوں غلے کی قلت تھی۔ شیخ اس کے برتاؤ سے اس معاملے کو سمجھ گئے تو اس سے کہا: دیکھو ہم تمہارے پاس فقط تمہاری دلجوئی کے لیے آئے ہیں، کیونکہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تمہارے شریک تجارت سے ڈاکوں نے سب مال لوٹ لیا ہے۔

اس پر وہ مجوسی بولا: ہاں یہ بات درست ہے مگر پھر بھی میں تین باتوں پر شکرکرتاہوں:

انہوں نے مجھ سے مال لوٹا ہے، مگر میں نے تو کسی کا مال نہیں لوٹا

میرا آدھا مال لوٹا گیا ہے، جب کہ باقی آدھا مال تو میرے پاس موجود ہے

اگرچہ میرا کافی مال لوٹ لیا گیا ہے، مگر میرا مذہب اور دین تو باقی ہے

شیخ اس کی یہ بات سن کر بہت متعجب ہوئے کہ ایک مجوسی ہو کر یہ شخص کیسے عمدہ خیالات رکھتا ہے۔

پھر شیخ نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ باتیں لکھ لو، بہت کام کی ہیں، اور اس سے مجھے اسلام کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

پھر شیخ نے اس مجوسی کی طرف توجہ کی اور اس سے پوچھا:

تم اس آگ کی عبادت کیوں کرتے ہو؟

اس نے کہا: تاکہ یہ مجھے جلائے نہیں۔نیز میں نے اس آگ کو دھکانے کے لیے اسے بے شمار لکڑیاں دی ہیں تو پھر بھلا یہ کیوں کر مجھ سے دغا کرے گی؟ اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مجھے اللہ تعالیٰ تک پہنچائے گی۔

شیخ نے اس مجوسی کی یہ بات سن کر کہا:

دیکھو تم سے بہت بڑی غلطی ہورہی ہے۔ کیوں کہ یہ آگ بہت کمزور اور بے بس ہے، اور پھر اس میں وفاء نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے، اور تم نے اس کے بارے میں جو گمان کررکھا ہے وہ محض ایک بے اصل اور باطل گمان ہے۔ اس کی بے بسی دیکھنی ہو تو یہی دیکھ لو کہ اگر ایک چھوٹا سا بچہ بھی اس پر پانی بہا دے، اس پر مٹی پھینک دے، تو یہ بجھ جاتی ہے۔ جو چیز خود اس درجہ کمزور اور بے بس ہو تو وہ تمہیں کیونکر ایک قوی و قادر پروردگار تک پہنچا سکتی ہے؟ اور جو چیز خود اس قدر عاجز ہو کہ وہ اپنے آپ سے پانی کے ایک قطرے یا مٹی کی ایک مٹھی نہ روک سکتی ہوتو وہ تمہیں عذاب سے کیونکر بچاسکے گی؟

پھر یہ بھی دیکھو کہ یہ آگ کس قدر جاہل ہے کہ مشک اور گندگی میں کوئی فرق نہیں کرسکتی، چنانچہ اگر تم یہ دونوں چیزیں اس میں پھینک دوتو یہ دونوں کو برابر جلا دے گی۔

پھر اس کی بے وفائی بھی دیکھو کہ تم کئی سالوں سے اس کی عبادت میں مشغول ہو، جبکہ میں اسے معبود سمجھتا ہی نہیں، اب ذرا کچھ دیر کے لیے ہم دونوں اس میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہ تمہارے اور میرے درمیان کوئی فرق کرتی ہے یا نہیں؟ اور میرے ہاتھ کے ساتھ تمہارے ہاتھ کو بھی جلاتی ہے یا نہیں؟

شیخ کی یہ باتیں سن کر وہ مجوسی بہت متاثر ہوگیا۔

مگر پھر اس نے کچھ سوچ کر کہا: اچھا میں بھی تم سے چار سوال کرتا ہوں، اگر تم نے ان کے جواب دے دیئے تو میں ابھی ایمان لے آؤں گا۔

یہ سن کر شیخ نے کہا: ٹھیک ہے تم اپنے سوال بتاؤ۔

اس موقع پر اس مجوسی نے وہ چار سوال کیے جو کالم کے شروع میں مذکور ہیں۔ یعنی:

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کیوں پیدا کیا؟

وہ مخلوق کو رزق کیوں دیتا ہے؟

وہ مخلوق کو موت کیوں دیتا ہے؟

اور موت کے بعد وہ انہیں زندہ کیوں کرے گا؟

شیخ نے جواب دیا:

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیاتاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں

اللہ تعالیٰ مخلوق کو رزق دیتے ہیں، تا کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کو پہچانے

اللہ تعالیٰ مخلوق کو موت دیتے ہیںتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت، بادشاہت اورشانِ قہاریت کا اِقرار و اِعتراف کریں

اللہ تعالیٰ مخلوق کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کریں گے، تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت اور شانِ علم کو پہچان لیں

جب اس مجوسی نے اپنے اُن چاروں سوالوں کے یہ جواب سنے تو کہنے لگا: مجھے ابھی اسلام قبول کراؤ۔ شیخ نے فوراً اس سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دلوائی۔ جب وہ گواہی دے چکا تو اِدھر شیخ نے فرط تاثر سے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔

جب شیخ کو افاقہ ہوا تو اس مجوسی نے پوچھا: شیخ آپ کو کیا ہوا تھا؟

شیخ نے کہا: جب میں نے کلمہ شہادت پڑھوانے کے لیے شہادت کی انگلی اٹھائی تھی تو میرے دل سے آواز آئی کہ دیکھو اس شخص نے کتنے ہی سال آگ کی پرستش میں گزارے اور اب اس کلمہ شہادت کے ذریعے اس کا انجام کس قدر اچھا ہوگا، جبکہ میں خود کتنے ہی سال سے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کر رہا ہوں مگر میرا انجام ابھی تک مجھے معلوم نہیں ہے، بس اسی خوف کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوگئی ۔ (تذکرۃ الاولیاء (عربی) ص۲۷۵ )

یہ پورا واقعہ ہمارے لیے عبرت ہی عبرت ہے۔ ہماری زندگی بھی ان چاروں سوالوں سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، ہمیں بھی وہی رزق دے رہا ہے، ہمیں بھی اسی کے مقرر کردہ وقت پر موت آجائے گی اور وہی ہمیں دوبارہ بھی مقرر کردہ وقت پر زندہ کر اٹھائے گا۔ کاش کہ ہم ان چاروں مراحل میں کلمہ طیبہ ’’لاالہ الا اللہ، محمد رسول اللہ‘‘ سے جڑے رہے ہیں اور یہ پاکیزہ کلمہ ہمارے ساتھ جڑا رہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی معرفت، اس کی الوہیت و بادشاہت اور شان قہاریت کا اعتراف اور اس کی قدرت و علم کامل کا یقین واستحضار، قدم قدم پر ساتھ رہے۔

شیخ موصوف کا یہ قول بھی قابل یاد داشت ہے کہ: ’’جتنا ہوسکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہو، کوشش کرو کہ تم دنیا کے دھوکے سے بچ کررہو، اور یاد رکھو کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آزمایا ہے تو وہ تمہیں بھی آزمائے گا۔ ‘‘

مدثر جمال تونسوی