اللہ تعالیٰ کا کسی بندے پر… یہ عظیم احسان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال کو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے لئے قبول فرما لے…اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے؟ جہاد کو کیا ضرورت ہے؟… مگر جس مسلمان کا مال جہاد میں قبول ہو جائے اُس کے دنیا و آخرت میں مزے ہو جاتے ہیں… اُسے ایسی عظیم نعمتیں ملتی ہیں کہ… جن کا تصور بھی پُرکیف ہے… آئیے عاجزی کے ساتھ التجا کریں کہ… اللہ تعالیٰ ہم پر یہ عظیم احسان فرمائے کہ ہمارا زیادہ سے زیادہ مال جہاد فی سبیل اللہ میں قبول فرما لے…
ایک منظر دیکھیں
جب حضور اقدس ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو… جہاد پر مال لگانے کی ترغیب دی تو عورتیں بھی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق جہاد میں نکلنے والوں کی مدد کرر ہی تھیں، حضرت اُمّ سنان اسلمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں حضور ﷺ کے سامنے ایک کپڑا بچھا ہوا ہے جس پر کنگن ، بازو بند ، پازیب ، بالیاں ، انگوٹھیاں اور بہت سے زیور رکھے ہوئے ہیں… اور اس غزوہ کی تیاری کے لئے عورتوں نے جانے والوں کی مدد کے لئے جو زیورات بھیجے تھے اُن سے وہ کپڑا بھرا ہوا تھا… ( حیات الصحابہ)
ہاں بے شک اسلامی فتوحات اور اسلامی جہاد میں مسلمان خواتین کا بہت بڑا حصہ ہے… تاریخ ان کے کارناموں سے بھری پڑی ہے… آسمان کو آج بھی وہ منظر یاد ہے جب غزوہ احد میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا … حضور اقدس ﷺ کے چاروں طرف بہادری کے ساتھ لڑ رہی تھیں اور دشمنوں کو پیچھے دھکیل رہی تھیں… کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں… حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ہدیے کی کچھ چادریں آئیں ان میں سے ایک چادر بہت عمدہ،بڑی اور قیمتی تھی… کسی نے مشورہ دیا کہ… یہ چادر آپ اپنی نئی بہو کو عطاء فرما دیجئے… حضرت صفیہ بنت ابی عبید رضی اللہ عنہا کی آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے… نئی نئی شادی ہوئی تھی… حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں… میں یہ چادر ایسی عورت کو بھیجوں گا جو ابن عمر کی بیوی سے زیادہ حقدار ہے اور وہ ہیں اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا… میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جنگ احد کے دن میں دائیں بائیں جس طرف بھی منہ کرتا مجھے ام عمارہ بچانے کے لئے اس طرف لڑتی ہوئی نظر آتی…
امت کی امی جی کا عمل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ… حضرت زینب ( ام المومنین ) رضی اللہ عنہا سوت کاتا کرتی تھیں اور حضور ﷺ کے لشکروں کو دے دیا کرتیں… وہ لوگ اس سوت سے (کپڑے وغیرہ) سیا کرتے اور اپنے سفر میں دوسرے کاموں میں لاتے۔ ( حیاۃ الصحابہ)
شکر ادا کرو مجاہدو! خوشیاں مناؤ مجاہدو! اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ شان بنائی ہے کہ ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش… جن کا خاص تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے… اور جن کا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ سے پڑھایا… وہ مجاہدین کے لئے سوت کات رہی ہیں… آج کل کے لوگ شاید نہ سمجھیں… سوت کاتنے کا مطلب اون یا کپاس سے دھاگہ اور رسی بنانا ہوتا ہے… یہ بہت محنت طلب کام ہے جو پہلے ’’چرخے‘‘ پر کیا جاتا تھا… مجاہدین کے مقام کو ہر کوئی نہیں سمجھتا… اور جو سمجھ جاتا ہے تو پھر وہ ان کی خدمت کو سعادت سمجھتا ہے… ام المومنین رضی اللہ عنہا اپنے مجاہد بیٹوں کے لئے خود سوت کات رہی ہیں… یہ منظر سوچ کر انسان کے جذبات کا عجیب عالَم بن جاتا ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی جہاد کی نعمت نصیب فرمائے… ہمیں بھی مخلص مجاہد بنائے اور ہمیں بھی جہاد اور مجاہدین پر دل کھول کر مال لگانے کی توفیق عطاء فرمائے… مسلمان عورتیں اپنی حدود میں رہتے ہوئے… جہاد میں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں… ان کے لئے کوئی ممانعت یا محرومی نہیں ہے… صرف لڑائی کے لئے میدان میں جانے کی عام اجات نہیں ہے… باقی جہاد کے بہت سے کام وہ کر سکتی ہیںا ور انہیں کرنے بھی چاہئیں … حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے جنگ احد کے دن اپنے بیٹے کو ایک تلوار دی، جسے وہ اٹھا نہیں سکتا تھا تو اس عورت نے چمڑے کے تسمے سے وہ تلوار اس کے بازو کے ساتھ مضبوط باندھ دی، پھر اسے لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! میرا یہ بیٹا آپ کی طرف سے لڑائی کرے گا…
لاڈلے، پیارے خوش نصیب
الحمد للہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ایسے خوش نصیب اور پیارے بندے بھی دیکھے ہیں کہ… جن کا سب کچھ جہاد میں لگ گیا… سارا مال بھی، جان بھی… اور جسم بھی… مجھے ایسے افراد پر رشک آتا ہے… کس کس کو یاد کروں… وہ یاد آتے جاتے ہیں اور آنکھیں بھیگتی چلی جاتی ہیں… ایک نوجوان کو تو میں نے باقاعدہ حکم اور ترغیب دے کر اس کا مال واپس کیا کہ… یہ اپنی والدہ کو دے جاؤ …وہ جہاد پر جا رہا تھا اور واپسی کا ذرہ بھر ارادہ نہیں تھا… اور اپنا سارا مال بھی جماعت کو دینا چاہتا تھا… میں نے اس کے حالات پوچھے اور پھر اسے کہا کہ… تم جیسا شیر جوان کافی ہے مال اپنی والدہ کو دے جاؤ… وہ حج کر لیں گی… تمہیں اور زیادہ دعاء دے دیں گی… جماعت تو ویسے ہی تم جیسے جانبازوں کی مقروض اور احسان مند ہے… وہ مان گیا اور چلا گیا… اللہ تعالیٰ اس کے درجات بے حد بلند فرمائے… اور کئی کو دیکھا کہ… آخری معرکے میں جا رہے ہیں اور یہ فکر لگائے بیٹھے ہیں کہ… ہم نے جماعت سے کتنا کھانا کھایا… اور کتنا خرچہ لیا… اب ہمارے بعد ہماری فلاں چیز بیچ کر اتنی رقم جماعت میں دے دی جائے… حالانکہ وہ جانتے تھے کہ… انہوں نے جو کچھ کھایا پیا وہ ان کے لئے حلال طیب تھا… ایسے اللہ والوں کو اگر ہم سونے کا لقمہ کھلائیں تو بھی ان کی خدمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا… مگر وہ تو دال روٹی کو بھی… احسان مانتے ہیں… اور اس احسان کو چکانے کی فکر میں رہتے ہیں… دراصل وہ اپنا سب کچھ جہاد میں لگانا ہی اپنی کامیابی اور سعادت سمجھتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں سے پردے ہٹا دئیے ہیں… جن کی آنکھوں سے پردے ہٹ جائیں وہ جہاد کے بلند مقام کی ایک جھلک اسی دنیا میں دیکھ لیتے ہیں…اور پھر اس پر اپنا سب کچھ لگانے کی فکر کرتے ہیں… جبکہ دنیا میں ایسے مسلمان بھی ہیں کہ… جن کا کبھی ایک پیسہ جہاد پر نہیں لگا… جان تو دور کی بات… کبھی ان کے پسینے کا ایک قطرہ بھی… جہاد کی خاطر نہیں گرا…اللہ کا وہ فریضہ جس پر حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنا خون نچھاور فرمایا… ان مسلمانوں کی زندگیوں میں…ذرا برابر اہمیت نہیں رکھتا… بلکہ بعض بدنصیب تو ایسے کہ وہ مسلمانوں کو… جہاد سے روکتے ہیں… اور جہاد پر خرچ کرنے سے منع کرتے ہیں… یا اللہ! بد نصیبی سے حفاظت!!
دو باپ، دو بیٹے
قرآن مجید کی آخری سورت میں’’خناس‘‘ کا تذکرہ ہے… ’’خناس‘‘ کہتے ہیں حملہ کر کے چھپ جانے والے کو… یہ ایک تفصیلی موضوع ہے آج اسی پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر پاکیزہ جذبوں کی لہر نے دوسری طرف بہا دیا… عرض یہ کرنا تھا کہ…’’خناس‘‘ دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں… یہ ’’خناس‘‘ جنات بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی… ان کا ایک وسوسہ اولاد کے روشن مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے… اور اس کی خاطر وہ مسلمانوں سے… بڑے بڑے گناہ، بڑی بڑی خیانتیں کرواتے ہیں… اولاد کے لئے یہ چھوڑ جاؤ، وہ چھوڑ جاؤ… اولاد کے لئے یہ بنا جاؤ،وہ بنا جاؤ …وغیرہ وغیرہ … اس پر بس ایک واقعہ لکھ کر آج کی مجلس ختم کرتے ہیں رمضان المبارک میں… مختصر باتیں ہی اچھی ہوتی ہیں…
مقاتل بن سلیمان ؒ فرماتے ہیں:
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیچھے گیارہ بیٹے چھوڑے اور ان کا کل ترکہ اٹھارہ دینار تھا… ان میں سے پانچ دینار کفن پر لگ گئے، چار دینار کی قبر خریدی گئی… اور باقی نو دینار… ان کے بیٹوں اور باقی اولاد میں تقسیم ہو گئے… جبکہ ہشام بن عبد الملک نے بھی گیارہ بیٹے چھوڑے اور اس کے ترکہ میں سے ہر بیٹے کو دس لاکھ (سونے کے) دینار ملے…یہ تو نقد رقم تھی جبکہ زمینیں، محلات ، باغ اور غلام باندیاںان کے علاوہ تھیں… مگر پھر کیا ہوا…
اللہ کی قسم! میں نے ایک ہی دن میں دو منظر دیکھے ایک یہ کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا ایک بیٹا ایک سو گھوڑے تمام جہادی سامان کے ساتھ مجاہدین کو صدقہ کر رہا تھا دوسرا منظر یہ کہ ہشام بن عبد الملک کا ایک بیٹا بازار میں بھیک مانگ رہا تھا…
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭
سعدی کے قلم سے