ملک کے سب سے بڑے ادارے (پارلیمنٹ) میں بھرتیاں ہو رہی ہیں اور یہ سب غائب ہیں؟
اگر کسی ادارے میں کوئی ڈرائیور بھی رکھنا ہو تو پہلے اس کا رِٹن ٹیسٹ لیتے ہیں، پھر فیزیکل ٹیسٹ لیتے ہیں، پھر ڈرائیونگ ٹیسٹ لیتے ہیں، پھر انٹرویو لیتے ہیں اور پھر جا کر میرٹ بناتے ہیں.
لیکن ذرا ٹھہریئے، کیونکہ یہ سب کچھ صرف اور صرف عوام کے لیئے ہے، سارے ٹیسٹ، سارے انٹرویو، صرف عوام کے لیئے.
اور اس کے ساتھ ساتھ، جب بھی کسی نوکری کا اشتہار آتا ہے تو لکھا ہوتا ہے کہ کوالیفیکیشن کم از کم ماسٹرز، اور ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ایم فل، پی ایچ ڈی والوں کو ترجیح دی جائے گی. اور عمر والے خانے میں لکھا ہوتا ہے کہ 20 تا 28 سال اور ساتھ تجربہ 5، 7 یا بعض اوقات تو 10 سال بھی لکھا ہوتا ہے. اس کے ساتھ آپ کا میڈیکلی فِٹ ہونا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے. لیکن یہ سب شرائط صرف عوام کے لیئے ہیں.
اب آتے ہیں جی دوسری طرف یعنی کہ سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ میں بھرتیوں کی طرف....
ضرورت برائے، ایم پی اے، ایم این اے، وفاقی وزیر، صوبائی وزیر، وزیر اعظم، وزیر اعلٰی، سینیٹر، گورنر اور صدر....تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں سب چلتا ہے، چاہے انگوٹھا چھاپ ہو یا جعلی ڈگری والا سب چلے گا.
چوری چکاری، ڈاکہ زنی، کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت اور کمیشن خوری میں وسیع تجربہ رکھنے والے امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی.
میڈیکلی صرف نبض کا چلنا ضروری ہے، دمہ، کینسر، بلڈ پریشر چاہے جو بھی بیماری ہو، خیر ہے، بس نبض چل رہی ہو تو آپ گورنر، صدر سب کچھ بن سکتے ہیں.
لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ ان انگوٹھا چھاپ لوگوں کو ہم خود اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں اور پھر یہی انگوٹھا چھاپ وزیر، مشیر وزیراعظم بنتے ہیں. اور پھر یہی انگوٹھا چھاپ جنہیں قانون کا کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں جا کر قانون سازی کرتے ہیں، اور قانون سازی کرتے وقت بھی وہ صرف اپنے مفاد کو ہی مدِ نظر رکھتے ہیں نہ کہ عوام کے مفاد کو....اس کی ایک تازہ مثال ابھی الیکشن 2018 کے لیئے کاغذاتِ نامزدگی میں کی جانے والی ترمیم ہے. اس کے مطابق اب سب چور اچکے، جھوٹے، ڈاکو، قاتل، ٹیکس نادہندہ اسمبلی میں جا کر قانون سازی کر سکتے ہیں.
جب ایک چھوٹی سے چھوٹی نوکری کے لیئے بھی ایک عام آدمی کا تعلیم یافتہ ہونا اور باقاعدہ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے تو پھر ان لوگوں کے لیئے ایسا کیوں نہیں؟
میرے مطابق ایم پی اے کے لیئے کم از کم تعلیم بی اے یا بی ایس سی ہونی چاہیئے اور صوبے کے وزیراعلٰی کے لیئے ایم اے یا ایم ایس سی جبکہ گورنر کے لیئے تعلیم ایم فل ہونی چاہیئے.
ایم این اے اور سینیٹر کے لیئے کم از کم ایم اے یا ایم ایس سی تعلیم ہونی چاہیئے. جبکہ وزیرِ اعظم اور صدر کے لیئے پی ایچ ڈی لازمی ہونی چاہیئے. کیا 22 کروڑ کی آبادی میں 2 پی ایچ ڈی بندے نہیں مل سکتے جو حکومت چلا سکیں؟
جبکہ صوبائی اور وفاقی وزرا، متعلقہ محکمے کے مطابق تعلیم یافتہ ہونے چاہیئے، مثلاً وزیر صحت ایک ڈاکٹر ہونا جو کہ اپنے محکمے کو اچھی طرح سمجھ سکے، اسی طرح وزیر قانون ایک ماہر قانون ہونا چاہیئے اسی طرح باقی تمام محکموں کے وزرا ہونے چاہیئے.
جبکہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے سے پہلے الیکشن کمیشن ان کا باقاعدہ ٹیسٹ لیا کرے اور جو ٹیسٹ میں پاس ہو صرف وہی الیکشن لڑنے کا اہل ہو اور جو فیل ہو وہ گھر جائے.
جب ایسے پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں میں جائیں گے تو پھر ہی وہ لوگوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کو سمجھ کر ان کے مطابق قانون سازی کریں گے. لیکن جب اسمبلی میں ہی انگوٹھا چھاپ جائیں گے تو پھر وہ قانون سازی بھی اپنے جیسی ہی کریں گے.
ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے کہ جس میں ایک پی ایچ ڈی بندہ ایک انگوٹھا چھاپ کو ووٹ دے کر قانون سازی کرنے کے لیئے اپنے اوپر مسلط کرتا ہے. لیکن جب تک ہم عوام ہی اس بوسیدہ سسٹم کو بدلنے کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک انگوٹھا چھاپ ہی قانون سازی کرتے رہیں گے.

عام عوام جاگو، جاگو، جاگو!