لوگوں ہی کا خوں بہہ جاتا ہے ہوتا نہیں کچھ سلطانوں کو
طوفان بھی نہیں زحمت دیتے ان کے سنگین ایوانوں کو
ہر روز قیامت ﮈھاتے ہیں تیرے بے بس انسانوں پر
اے خالق انساں تو سمجھا اپنے خونی انسانوں کو
دیواروں میں سہمے بیٹھے ہیں کیا خوب ملی ہے آزادی
اپنوں نے بہایا خوں اتنا ہم بھول گئے بیگانوں کو
اک اک پل ہم پر بھاری ہے دہشت تقدیر ہماری ہے
گھر میں بھی نہیں محفوظ کوئی باہر بھی ہے خطرہ جانوں کو
غم اپنا بھلائیں جا کے کہاں ہم ہیں اور شہر آہ و فغاں
ہیں شام سے پہلے لوگ رواں اپنے اپنے غم خانوں کو
نکلیں کہ نہ نکلیں ان کی رضا بندوق ہے ان کے ہاتھوں میں
سادہ تھے بزرگ اپنے جالب گھر سونپ گئے دربانوں کو
Bookmarks