Results 1 to 11 of 11

Thread: اردو زبان کا زوال : ذمہ دار کون؟

  1. #1
    maktabweb is offline Advance Member
    Last Online
    3rd October 2022 @ 12:09 PM
    Join Date
    19 Sep 2015
    Location
    Karachi
    Age
    61
    Gender
    Male
    Posts
    1,769
    Threads
    837
    Credits
    20,706
    Thanked
    267

    Default اردو زبان کا زوال : ذمہ دار کون؟

    السلام علیکم

    یہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
    صرف چند انگریزی کے الفاظ مستعمل تھے، مثلا"
    ہیڈ ماسٹر،
    فِیس،
    فیل،
    پاس اور جمعرات کو
    لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
    کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

    انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
    پھر استاد کو سر کہا جانے لگا-
    سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
    پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
    کلاس میں تبدیل ہوگئی-
    اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

    ہمیں بخوبی یاد ہے کہ
    اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں،
    اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
    پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
    اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
    تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

    گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
    چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔

    پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
    امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
    ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
    اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔

    قلم،
    دوات،
    سیاہی،
    تختی، اور
    سلیٹ
    جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئے-
    کاپیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہوگیا-

    نصاب کو کورس کہا جانے لگا
    اور اس کورس کی ساری کتابیں بیگ میں رکھ دی گئیں۔
    ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
    اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی-
    انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی-
    اسی طرح طبیعات فزکس،
    معاشیات اکنامکس،
    سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں-

    پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
    پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
    اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

    داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
    اول، دوم، سوم اور آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
    پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
    بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
    یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

    باقی رہے پرائیویٹ سکول،
    ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
    ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

    مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
    مقصد یہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

    اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے،
    ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
    زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
    خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

    باورچی خانہ کچن بن گیا
    اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
    غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
    مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

    پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
    دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
    کمرے روم بن گئے۔
    کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

    "ابو جی" یا "ابا" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا،
    اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
    اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان "ممی" میں تبدیل ہو گیا۔

    سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
    چچا چچی،
    تایا تائی
    ماموں ممانی،
    پھوپھا پھوپو،
    خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
    بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
    یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
    ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
    ماموں زاد،
    خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے
    نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
    بس ایک نام تبدیلی کے زد سے بچ گیا،
    کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

    گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔
    دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
    آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
    سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
    یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا'۔
    کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ( جہاں شان سے حمام گرم ہے کی تختی آویزاں رہتی تھی) اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

    ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
    پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
    بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن بن گئے۔
    پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

    سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
    اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
    محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
    صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
    مہربانی کی جگہ پلیز
    پلیز اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔
    معاف کیجئے کے جگہ سوری
    کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

    اکثر ہم کہتے ہیں میں منڈے میں سنڈے کو آؤنگا۔ کبھی آپ نے سنا کہ
    I will come on پیر/اتوار
    اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حدالمقدور حصہ لیا ہے-

    اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
    وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

    وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

    ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
    دوسروں کا کیا رونا روئیں،
    ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں،
    دوسرا اور کون ہوسکتا ہے؟
    اب دوسروں کو بیدار کرنے کے لئے اس بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں،

  2. #2
    Haseeb Alamgir's Avatar
    Haseeb Alamgir is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 09:41 PM
    Join Date
    09 Apr 2009
    Location
    KARACHI&
    Gender
    Male
    Posts
    19,366
    Threads
    419
    Credits
    39,831
    Thanked
    1813

    Default

    بہت پیاری شئیرینگ کی ہے آپ نے
    پڑھ کر اچھا لگا
    میں یہ تحریر پہلے بھی پڑھ چکا ہوں
    پر
    ہم کام کم کرتے ہیں اور باتیں زیادہ بناتےہیں
    جو لوگ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری زبان کے طورپر استعمال کیا جائے
    ساری دنیا اپنی اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو دنیاوی علم کے تعلیم دے کر ترقی کر سکتی ہے
    بس
    پاکستان میں انگریزی کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی ہے

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

  3. #3
    leezuka389's Avatar
    leezuka389 is offline Advance Member
    Last Online
    13th April 2024 @ 10:13 AM
    Join Date
    04 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    6,596
    Threads
    39
    Credits
    58,143
    Thanked
    294

    Default

    bahot khob janab

  4. #4
    Rashid Jaan is offline Advance Member
    Last Online
    11th February 2024 @ 02:14 PM
    Join Date
    18 Oct 2016
    Location
    Ghotki Sindh
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    1,512
    Threads
    91
    Thanked
    84

    Default

    Nice

  5. #5
    Join Date
    23 Jun 2007
    Location
    *~Fateh Jang~*
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    38,526
    Threads
    2402
    Credits
    28,617
    Thanked
    3764

  6. #6
    roogibutt is offline Advance Member
    Last Online
    27th January 2024 @ 09:01 PM
    Join Date
    02 Aug 2011
    Age
    43
    Gender
    Male
    Posts
    688
    Threads
    72
    Credits
    2,301
    Thanked
    32

    Default

    Quote Haseeb Alamgir said: View Post
    بہت پیاری شئیرینگ کی ہے آپ نے
    پڑھ کر اچھا لگا
    میں یہ تحریر پہلے بھی پڑھ چکا ہوں
    پر
    ہم کام کم کرتے ہیں اور باتیں زیادہ بناتےہیں
    جو لوگ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری زبان کے طورپر استعمال کیا جائے
    ساری دنیا اپنی اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو دنیاوی علم کے تعلیم دے کر ترقی کر سکتی ہے
    بس
    پاکستان میں انگریزی کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی ہے

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
    Ap ne b boht piyari bat ki

  7. #7
    roogibutt is offline Advance Member
    Last Online
    27th January 2024 @ 09:01 PM
    Join Date
    02 Aug 2011
    Age
    43
    Gender
    Male
    Posts
    688
    Threads
    72
    Credits
    2,301
    Thanked
    32

    Default

    Quote maktabweb said: View Post
    السلام علیکم

    یہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
    صرف چند انگریزی کے الفاظ مستعمل تھے، مثلا"
    ہیڈ ماسٹر،
    فِیس،
    فیل،
    پاس اور جمعرات کو
    لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
    کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

    انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
    پھر استاد کو سر کہا جانے لگا-
    سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
    پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
    کلاس میں تبدیل ہوگئی-
    اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

    ہمیں بخوبی یاد ہے کہ
    اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں،
    اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
    پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
    اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
    تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

    گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
    چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔

    پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
    امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
    ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
    اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔

    قلم،
    دوات،
    سیاہی،
    تختی، اور
    سلیٹ
    جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئے-
    کاپیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہوگیا-

    نصاب کو کورس کہا جانے لگا
    اور اس کورس کی ساری کتابیں بیگ میں رکھ دی گئیں۔
    ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
    اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی-
    انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی-
    اسی طرح طبیعات فزکس،
    معاشیات اکنامکس،
    سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں-

    پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
    پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
    اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

    داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
    اول، دوم، سوم اور آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
    پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
    بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
    یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

    باقی رہے پرائیویٹ سکول،
    ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
    ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

    مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
    مقصد یہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

    اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے،
    ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
    زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
    خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

    باورچی خانہ کچن بن گیا
    اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
    غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
    مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

    پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
    دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
    کمرے روم بن گئے۔
    کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

    "ابو جی" یا "ابا" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا،
    اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
    اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان "ممی" میں تبدیل ہو گیا۔

    سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
    چچا چچی،
    تایا تائی
    ماموں ممانی،
    پھوپھا پھوپو،
    خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
    بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
    یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
    ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
    ماموں زاد،
    خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے
    نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
    بس ایک نام تبدیلی کے زد سے بچ گیا،
    کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

    گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔
    دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
    آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
    سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
    یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا'۔
    کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ( جہاں شان سے حمام گرم ہے کی تختی آویزاں رہتی تھی) اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

    ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
    پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
    بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن بن گئے۔
    پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

    سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
    اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
    محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
    صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
    مہربانی کی جگہ پلیز
    پلیز اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔
    معاف کیجئے کے جگہ سوری
    کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

    اکثر ہم کہتے ہیں میں منڈے میں سنڈے کو آؤنگا۔ کبھی آپ نے سنا کہ
    I will come on پیر/اتوار
    اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حدالمقدور حصہ لیا ہے-

    اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
    وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

    وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

    ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
    دوسروں کا کیا رونا روئیں،
    ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں،
    دوسرا اور کون ہوسکتا ہے؟
    اب دوسروں کو بیدار کرنے کے لئے اس بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں،
    Bhai ap ne boht khubsurat ishtrak kiya yeh such hai

  8. #8
    Haseeb Alamgir's Avatar
    Haseeb Alamgir is offline Super Moderator
    Last Online
    Yesterday @ 09:41 PM
    Join Date
    09 Apr 2009
    Location
    KARACHI&
    Gender
    Male
    Posts
    19,366
    Threads
    419
    Credits
    39,831
    Thanked
    1813

    Default

    Quote roogibutt said: View Post
    Ap ne b boht piyari bat ki
    اظہارِپسندیدگی کا بہت شکریہ

  9. #9
    WaqasAnsari555's Avatar
    WaqasAnsari555 is offline Junior Member
    Last Online
    27th December 2018 @ 12:13 PM
    Join Date
    18 Sep 2018
    Location
    Chichawatni
    Age
    25
    Gender
    Male
    Posts
    4
    Threads
    1
    Credits
    72
    Thanked
    0

    Default

    Very well
    Keep smiling ☺

  10. #10
    leezuka389's Avatar
    leezuka389 is offline Advance Member
    Last Online
    13th April 2024 @ 10:13 AM
    Join Date
    04 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    6,596
    Threads
    39
    Credits
    58,143
    Thanked
    294

    Default

    Quote Haseeb Alamgir said: View Post
    بہت پیاری شئیرینگ کی ہے آپ نے
    پڑھ کر اچھا لگا
    میں یہ تحریر پہلے بھی پڑھ چکا ہوں
    پر
    ہم کام کم کرتے ہیں اور باتیں زیادہ بناتےہیں
    جو لوگ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری زبان کے طورپر استعمال کیا جائے
    ساری دنیا اپنی اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو دنیاوی علم کے تعلیم دے کر ترقی کر سکتی ہے
    بس
    پاکستان میں انگریزی کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی ہے

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
    bahot khob janab

  11. #11
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,912
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    بہت عمدہ

    - - - Updated - - -

    Quote maktabweb said: View Post
    السلام علیکم

    یہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
    صرف چند انگریزی کے الفاظ مستعمل تھے، مثلا"
    ہیڈ ماسٹر،
    فِیس،
    فیل،
    پاس اور جمعرات کو
    لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
    کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

    انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
    پھر استاد کو سر کہا جانے لگا-
    سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
    پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
    کلاس میں تبدیل ہوگئی-
    اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

    ہمیں بخوبی یاد ہے کہ
    اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں،
    اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
    پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
    اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
    تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

    گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
    چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔

    پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
    امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
    ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
    اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔

    قلم،
    دوات،
    سیاہی،
    تختی، اور
    سلیٹ
    جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئے-
    کاپیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہوگیا-

    نصاب کو کورس کہا جانے لگا
    اور اس کورس کی ساری کتابیں بیگ میں رکھ دی گئیں۔
    ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
    اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی-
    انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی-
    اسی طرح طبیعات فزکس،
    معاشیات اکنامکس،
    سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں-

    پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
    پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
    اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

    داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
    اول، دوم، سوم اور آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
    پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
    بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
    یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

    باقی رہے پرائیویٹ سکول،
    ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
    ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

    مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
    مقصد یہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

    اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے،
    ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
    زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
    خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

    باورچی خانہ کچن بن گیا
    اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
    غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
    مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

    پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
    دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
    کمرے روم بن گئے۔
    کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

    "ابو جی" یا "ابا" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا،
    اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
    اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان "ممی" میں تبدیل ہو گیا۔

    سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
    چچا چچی،
    تایا تائی
    ماموں ممانی،
    پھوپھا پھوپو،
    خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
    بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
    یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
    ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
    ماموں زاد،
    خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے
    نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
    بس ایک نام تبدیلی کے زد سے بچ گیا،
    کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

    گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔
    دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
    آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
    سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
    یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا'۔
    کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ( جہاں شان سے حمام گرم ہے کی تختی آویزاں رہتی تھی) اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

    ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
    پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
    بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن بن گئے۔
    پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

    سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
    اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
    محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
    صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
    مہربانی کی جگہ پلیز
    پلیز اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔
    معاف کیجئے کے جگہ سوری
    کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

    اکثر ہم کہتے ہیں میں منڈے میں سنڈے کو آؤنگا۔ کبھی آپ نے سنا کہ
    I will come on پیر/اتوار
    اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حدالمقدور حصہ لیا ہے-

    اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
    وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

    وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

    ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
    دوسروں کا کیا رونا روئیں،
    ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں،
    دوسرا اور کون ہوسکتا ہے؟
    اب دوسروں کو بیدار کرنے کے لئے اس بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں،
    بہت عمدہ


    - - - Updated - - -

    Quote maktabweb said: View Post
    السلام علیکم

    یہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
    صرف چند انگریزی کے الفاظ مستعمل تھے، مثلا"
    ہیڈ ماسٹر،
    فِیس،
    فیل،
    پاس اور جمعرات کو
    لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
    کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

    انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
    پھر استاد کو سر کہا جانے لگا-
    سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
    پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
    کلاس میں تبدیل ہوگئی-
    اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

    ہمیں بخوبی یاد ہے کہ
    اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں،
    اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
    پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
    اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
    تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

    گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
    چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔

    پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
    امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
    ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
    اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔

    قلم،
    دوات،
    سیاہی،
    تختی، اور
    سلیٹ
    جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئے-
    کاپیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہوگیا-

    نصاب کو کورس کہا جانے لگا
    اور اس کورس کی ساری کتابیں بیگ میں رکھ دی گئیں۔
    ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
    اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی-
    انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی-
    اسی طرح طبیعات فزکس،
    معاشیات اکنامکس،
    سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں-

    پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
    پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
    اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

    داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
    اول، دوم، سوم اور آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
    پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
    بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
    یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

    باقی رہے پرائیویٹ سکول،
    ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
    ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

    مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
    مقصد یہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

    اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے،
    ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
    زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
    خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

    باورچی خانہ کچن بن گیا
    اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
    غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
    مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

    پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
    دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
    کمرے روم بن گئے۔
    کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

    "ابو جی" یا "ابا" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا،
    اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
    اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان "ممی" میں تبدیل ہو گیا۔

    سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
    چچا چچی،
    تایا تائی
    ماموں ممانی،
    پھوپھا پھوپو،
    خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
    بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
    یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
    ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
    ماموں زاد،
    خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے
    نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
    بس ایک نام تبدیلی کے زد سے بچ گیا،
    کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

    گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔
    دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
    آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
    سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
    یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا'۔
    کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ( جہاں شان سے حمام گرم ہے کی تختی آویزاں رہتی تھی) اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

    ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
    پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
    بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن بن گئے۔
    پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

    سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
    اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
    محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
    صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
    مہربانی کی جگہ پلیز
    پلیز اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔
    معاف کیجئے کے جگہ سوری
    کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

    اکثر ہم کہتے ہیں میں منڈے میں سنڈے کو آؤنگا۔ کبھی آپ نے سنا کہ
    I will come on پیر/اتوار
    اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حدالمقدور حصہ لیا ہے-

    اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
    وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

    وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

    ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
    دوسروں کا کیا رونا روئیں،
    ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں،
    دوسرا اور کون ہوسکتا ہے؟
    اب دوسروں کو بیدار کرنے کے لئے اس بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں،
    بہت عمدہ

Similar Threads

  1. Replies: 8
    Last Post: 14th December 2022, 12:58 PM
  2. Replies: 5
    Last Post: 20th May 2015, 01:21 AM
  3. Replies: 8
    Last Post: 13th May 2015, 11:49 AM
  4. Replies: 19
    Last Post: 8th August 2011, 03:27 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •