مرا انتظار بھی تھا کبھی، مگر اب نہیں
دل بے قرار بھی تھا کبھی، مگر اب نہیں
کبھی فرصتوں میں اپنے آپ سے پوچھنا
مری جستجو لیل و نہار بھی تھا کبھی مگر اب نہیں
جسے دیکھ کے تو نے اپنی نظریں پھیر لیں
تجھے اس سے پیار بھی تھا کبھی مگر اب نہیں
تری چاہ میں اے جان جاں، تری راہ میں
غم بے شمار بھی تھا کبھی مگر اب نہیں
جو بدل گئے ہیں ان دلوں کے کھیل میں
مری جیت میں بھی، ہار تھا مگر اب نہیں
جسے کوستے ہو اے کریمے سوختہ سر
وہی چارہ ساز بھی تھا کبھی مگر اب نہیں
کریم مایور
Sent from my Noir X1S using Tapatalk
Bookmarks