درد کیسا، قرار کیسا ہو،
پیار وہ بےشمار کیسا ہو،
دشمنوں سے تو خیر گلہ کیسا
ہاتھ ہو سنگ، یار کیسا ہو
ہم سے ملکر وہ غیر کی نسبت
ہو اگر شرمسار کیسا ہو،
ان کی خلوت میں دل بری کے لیے
جاوں گر بار بار کیسا ہو
ان کی وہ مے فشاں نگاہوں پر
کردوں میں جان نثار کیسا ہو
ایک تم ہی نہ ہو رقیب کریم
ہوں اگر صد، ہزار کیسا ہو
کریم مایور
Sent from my Noir X1S using Tapatalk
Bookmarks