السلام علیکم دوستو
آئی ٹی دنیا پر بہت عرصے بعد پوسٹ کر رہا ہوں، امید کرتا ہوں سب پرانے اور نئے دوست ٹھیک ہوں گے۔
کتاب ، واقعاتِ دارالحکومت دہلی از بشیر الدین دہلوی، کا مطالعہ کرتے ہوئے فیروز شاہ تغلق کے مقبرے کا ذکر آیا، مصنف نے مقبرے کی حالتِ زار بیان کی اور مندرجہ ذیل نظم درج کی۔
یاد ایام عشرت فانی
نہ وہ ہم ہیں نہ وہ تن آسانی
خاک میں رشک آسماں سے ملی
ہاے کیسی بلند ایوانی
ایسی وحشت سرا میں آئے کون
بے دری کررہی ہے دربانی
کیا ہوئی وہ بلندی دیوار
کیا ہوئے وہ عماد طولانی
جاے گل ہیں چمن میں ریزہ و سنگ
کاہ کرتی ہے نازِ ریحانی
اٹ گئے حوض و نہر غیر از چشم
ایک قطرہ کہیں نہیں پانی
نہ ملا کچھ نشانِ آبِ رواں
خاک سارے جہاں میں چھانی
سقف رنگیں و زر نگار کہاں
جز پہر و نجوم نورانی
شور زاغ و زغن ہے سمع خراش
اب کہاں بلبل و غزل خوانی
نظر آتی نہیں وہ تصویریں نقش
دیوار کیوں نہ ہو پانی
اس چمن کو خزاں تھی ضرور
میں کیا تہ کی بات پہچانی
شاعر ۔ نا معلوم
Bookmarks