ہے حقیقت گمان تھوڑی ہے
یہ سیاسی بیان تھوڑی ہے
چھوڑ کر چل دیا ہمیں یوں ہی
وہ کوئ بدگمان تھوڑی ہے
تیر کی جا گلاب کیوں نہ ملیں
زندگی ہے کمان تھوڑی ہے
کوئ شکوہ کریں تو کیسے کریں
اپنے منہ میں زبان تھوڑی ہے
ہم کو تکتہ ہے جس حقارت سے
تو کوئ آسمان تھوڑی ہے
ہم سے ملنے کو چل کے آۓ مگر
اس قدر مہربان تھوڑی ہے
کوئ بسنے لگا ہے اس میں بتول
دل ہے خالی مکان تھوڑی ہے
Bookmarks