بھلا فقیر کو دنیا کی کیا ضرورت ہے ؟؟
ترا تو صرف ابھی مسئلہ 'ضرورت' ہے !
تُو جانتا ہے ؟ محبت کی ؟ کیا ضرورت ہے ؟
یقین مان فقط 'بچپنا' ضرورت ہے !
یہ سرکشی جو ترے سر چڑھی ہے ! مار اِسے !
خدا کی تُو نہیں ! تیری، 'خدا' ضرورت ہے !
ضمیر سوئے ہوئے دو گھڑی تو جاگیں گے !
سو اپنے شہر کی، اک سانحہ، ضرورت ہے !
ابھی تُو عشق میں کچا ہے میرے یار ! تری !
کلام کے لیے گر، 'رابطہ' ضرورت ہے !
کہا یہ اُس نے مرے پاس صرف رنج بچا !
میں اپنی موج میں تھا ! کہہ دیا ! ضرورت ہے !
مجھی پہ چیخ پڑا ! "جا ! تری ضرورت نئیں !"
وہ جیسے رویا ! مجھے یہ لگا ! ضرورت ہے !
میں کائنات ہتھیلی پہ لا کے رکھ دیتا !
تُو ایک بار مجھے بولتا ! ضرورت ہے !
تُو خود کہے نہ کہے ! میں سمجھ چکا مرے دوست !
کہ تیری، قُرب نہیں ! فاصلہ ضرورت ہے !
یہ بات پوچھنے والی ہے ؟ اُس سے کون کہے ؟
وہ پوچھتا ہے کہ بھیجوں دعا ؟ ضرورت ہے ؟
سخی سے یہ نہیں بولا کہ "لازمی دے دے!"
اٹھا کے ہاتھ بس اتنا کہا "ضرورت ہے !
میں شاید اب کبھی اپنے بھی کام آ نہ سکوں !
اور اب تجھے بھی مری، کونسا ضرورت ہے !
تجھے تو یوں بھی بٹھا لیں گے لوگ آنکھوں پر !
حسین شخص ! تجھے میری کیا ضرورت ہے !
وہ روز مجھ کو نئے خواب سونپ دیتا ہے !
وہ مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھتا ! ضرورت ہے ؟
ترے ہی نام ! مرے لفظ، جسم، جان، یہ دل !
مجھے بتا ناں ! تری اور کیا ضرورت ہے ؟
تُو جب بھی میٹھے سے لہجے میں بات کرتا ہے !
تَو بول دیتا ہے لہجہ ترا ! ضرورت ہے !
تجھے یہ لگتا ہے ؟ اُس کی کوئی ضرورت نئیں ؟
جو شخص منہ سے نہیں کہہ رہا ! "ضرورت ہے !
تجھے مری نہ سہی ! پھر بھی تھوڑی دیر ٹھہر !
مجھے تری ! اے مرے دوستا ! ضرورت ہے !
یہ مجھ پہ چھوڑ دے ! جیسے بھی چاند لے آؤں !
اداس شخص ! فقط یہ بتا ! ضرورت ہے ؟
وہ اُس کی آنکھیں تو ویسے بھی جھیل آنکھیں ہیں !
بتاؤ ؟ سرمے کی اُس کو بھلا ضرورت ہے!
پھر ایسے بین رچائے گا کون میری طرح ؟
کسی کے غم کو مری بے بہا ضرورت ہے !
وہ پوچھتی بھی رہی ! "زین ! بول ! کیوں ٹھہروں ؟"
میں اُس سے یہ بھی نہیں کہہ سکا، "ضرورت ہے !
Bookmarks