حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے میں ایک دن رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کو اس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پٹھوں سے بُنی ایک چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں۔اور اس کے اور آپ کے جسمِ مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے،اور چٹائی کی بناوٹ نے آپ کے پہلوۓ مبارک پر گہرے نشان ڈال دیئے ہیں،
اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے،یہ حالت دیکھ کی میں نے عرض کیا،کہ:-حضور صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اللّٰہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ آپکی امّت کو فراخی اور خوشحالی عطا فرماۓ،روم اور فارس والوں کو بھی اللّٰہ نے فراخی دی ہے،حالانکہ وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہیں،آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:-اے ابنِ خطّاب کیا تم بھی اس حال میں اور اس خیال میں ہو؟یہ سب تو وہ لوگ ہیں (جو اپنی خدا فراموشی اور کافرانہ زندگی کی وجہ سے آخرت کی نعمتوں سے محروم و بےنصیب کیئے گئے ہیں اور اسلئے ) انکی وہ لذّتیں (جو اللّٰہ ان کو دینا چاہتا تھا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہیں،اور ایک روایت میں حضور صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا جواب اس طرح ذکر کیا گیا ہے،کہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:-اے عمر کیا تم اس پر راضی نہیں کہ ان کے لئے دنیا کا عیش ہو اور ہمارے لئے آخرت کا عیش۔(بخاری ومسلم
معارف الحدیث جلد دوئم حدیث نمبر 69