Results 1 to 4 of 4

Thread: Mufalis Kon Hai ?

  1. #1
    Hamza Mohammad is offline Junior Member
    Last Online
    15th March 2019 @ 08:09 PM
    Join Date
    14 Feb 2019
    Gender
    Male
    Posts
    13
    Threads
    12
    Credits
    137
    Thanked: 1

    Default Mufalis Kon Hai ?


    مفلس کون ہے ؟


    حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
    أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((أتدرون من المفلس؟)) قالوا: المفلس فینا من لا درھمَ لہ ولا متاع فقال: ((إنّ المفلس من أمّتي، مَن یأتي یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام وزکاۃ، ویأتي قد شتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ہذا، وسفک دم ھذا، وضرب ھذا، فیعطی ھذا من حسناتہ وھذا من حسناتہ، فإن فَنِیَتْ حسناتُہُ قبل أن یقضی ما علیہ، أُخذَ من خطایاھم فطُرِحت علیہ، ثُمّ طُرِح في النار))۔
    ( ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب البر والصلۃ وآداب، الحدیث: ۲۵۸۱، ص ۱۳۹۴)
    یعنی: حضور اقدس سیّد ِعالم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہومفلس کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کی: ہمارے یہاں تو مفلس وہ ہے جس کے پاس زَر ومال نہ ہو۔ فرمایا: میری اُمّت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے، زکوٰۃ لے کر آئے اور یوں آئے کہ اِسے (یعنی کسی دوسرے شخص کو ) گالی دی ، اِسے زنا کی تہمت لگائی، اس کا مال کھایااس کا خون گرایا، اسے مارا تو اس کی نیکیاں اسے (صاحبِ حق کو) دی گئیں پھر اگر نیکیاں ہو چکیں اور حق باقی ہیں تو اُن (حق والوں ) کے گناہ لے کر اس پر ڈالے گئے پھر جہنَّم میں پھینک دیا گیا۔
    والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالیٰ۔
    غرض حقوق العباد بے اُن کی معافی کے معاف نہ ہوں گے (جب تک بندے اپنے حقوق معاف نہیں کریں گے اس وقت تک حق تلفی کرنے والے کومعافی نہیں ملے گی)
    ولہٰذا مروی ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الغیبۃ أشدّ من الزنا)) ۔
    غیبت زنا سے سخت تر ہے۔
    کسی نے عرض کی: یہ کیونکر؟ فرمایا: ((الرجل یزني ثم یتوب، فیتوب اللہ علیہ، وإنّ صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ))۔
    رواہ ابن أبي الدنیا في’’ذم الغیبۃ‘‘ والطبراني في ’’الأوسط‘‘(’’المعجم الأوسط‘‘، من اسمہ محمد، الحدیث: ۶۵۹۰، ج۵، ص۶۳۔) عن جابر بن عبد اللہ وأبي سعید الخدري، والبیھقي عنھما وعن أنس رضي اللہ تعالی عنھم۔
    زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور غیبت والے کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی ہے۔
    (ابن ابی الدنیا نے ’’ذم الغیبۃ‘‘ میں اور امام طبرانی نے ’’الاوسط‘‘میں حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری سے اور امام بیہقی نے ان دونوں کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی اس کی روایت فرمائی۔ت)
    پھر یہاں معاف کرا لینا سہل (آسان) ہے قیامت کے دن اس کی اُمید مشکل کہ وہاں ہر شخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، نیکیوں کا طلبگار، برائیوں سے بیزار ہوگا۔ پَرائی نیکیاں اپنے ہاتھ آتے اپنی بُرائیاں اس(دوسرے) کے سَر جاتے کسے بُری معلوم ہوتی ہیں ! یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے کہ ماں باپ کا بیٹے پر کچھ دَین آتا ہو گا اسےروز ِقیامت لپٹیں گے کہ ہمارا دَین دے وہ کہے گا میں تمہارا بچہ ہوں ، یعنی شاید رحم کریں ، وہ تمنا کرینگے کاش اور زیادہ ہوتا!۔
    الطبراني(’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۱۰۵۲۶، ج۱۰، ص۲۱۹۔) عن ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول: ((إنّہ یکون للوالدین علی ولدھما دین فإذا کان یوم القیامۃ یتعلقان بہ، فیقول: أنا ولدکما، فَیَوَدَّانِ أو یَتَمَنَّیَانِ لو کان أکثرَ من ذلک))۔
    ’’طبرانی ‘‘ میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ والدین کا بیٹے پر دَین ہوگا قیامت کے روز والدین بیٹے پر لپٹیں گے تو بیٹا کہے گا میں تمہارا بیٹا ہوں تو والدین کو حق دلایا جائے گا اور تمنا کریں گے کاش! ہمارا حق اور زائد ہوتا۔ (ت)
    جب ماں باپ کا یہ حال تو اوروں سے امید خام خیال (بیکار)، ہاں ! کریم ورحیم مالک ومَوْلیٰ جل جلالہٗ وتبارَکَ وتعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو یوں کرے گا کہ حق والے کو بے بَہا قُصورِ جنت ( جنت کے انمول محلّات) معاوضہ میں عطا فرما کر َعفوِ حق (حق معاف کرنے) پر راضی کر دے گا ایک کرشمۂ کرم میں دونوں کا بھلا ہوگا نہ اس کی حسنات (نیکیاں ) اُسے دی گئیں نہ اُس کی سیئات (برائیاں ) اِس کے سر رکھی گئیں نہ اُس کا حق ضائع ہونے پایا بلکہ حق سے ہزاروں درجے بہتر ا فضل پایا رحمتِ حق کی بندہ نوازی ظالم ناجی، مظلوم راضی۔( یعنی: اگر اللہ تبارک و تعالیٰ چاہے گا تو ایسا کرم ہوگا کہ ظالم نجات پائے گا اور مظلوم بھی راضی ہو جائے گا۔)
    فلِلّٰہِ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضی۔
    پس اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے ایسی حمد وثنا جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہے جیساکہ ہمارے رب کی پسند اور رِضاہے ۔ (ت)
    حدیث میں ہے:
    بینا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جالس إذ رأیناہ ضحک حتی بدت ثنایاہ، فقال لہ عمر: ما أضحکک یا رسول اللہ بأبي أنت وأمّي؟
    یعنی: ایک دن حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ناگاہ (اچانک) خندہ فرمایا (مسکرائے) کہ اگلے دندانِ مبارک ظاہر ہوئے، امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ حضور پر قربان! کس بات پر حضور کو ہنسی آئی؟
    ارشاد فرمایا: ((رجلان من أمتي جَثَیا بین یَدَي ربِّ العِزَّۃِ فقال أحدھما: یا رَبِّ خُذْ لي مَظْلِمَتِيْ من أخي، فقال اللہ تَعَالی للطّالب: کیف تصنعُ بأَخیکَ ولم یبق من حسناتہ شيء قال: یا ربّ فیحمل من أوزاري، وفاضت عَیْنَا رسول اللہ
    دو مرد میری امت سے رب العزت جل جلالہ کے حضور زانوؤں پر کھڑے ہوئے، ایک نے عرض کی: اے رب میرے! میرے اس بھا ئی نے جو ظلم مجھ پر کیا ہے اس کا عوض میرے لئے لے۔ رب تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کے ساتھ کیا کریگا اس کی نیکیاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالبکاء، ثم قال: إنّ ذاک الیوم عظیم یحتاج الناس أن یُحْمَلََ عنھم من أوزارِھِمْ، فقال اللہ للطّالب: ارفع بَصَرکَ فانظر، فرفع فقال: یا ربِّ أرَی مدائنَ من ذھبٍ وقصورًا من ذھبٍ مُکَلَّلَۃً باللُّؤلُؤ لِأيِّ نبيّ ھذا أو لِأيِّ صدیق ھذا أو لأيِّ شھید ھذا؟ قال: لِمَنْ أعطی الثَّمَن، قال:یا ربِّ ومن یملک ذلک؟ قال: أنت تملکہ، قال: بماذا؟ قال: بعفوک عن أخیک، قال: یا ربِّ فإنّي قد عفوتُ عنہ، قال اللہ تعالی: فخُذْ بیدِ أخیْکَ فأدْخِلْہُ الجنَّۃ۔فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عند ذلک: ((اتقوا اللہ وأصْلِحُوا ذات بینکم فإنّ اللہ یُصلِح بین المسلمین یوم القیامۃ))۔
    تو سب ہو چکیں۔ مُدَّعِی نے عرض کی: اے رب میرے! تو میرے گناہ وہ اٹھالے۔ یہ فرماکر حضور رحمت ِعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی آنکھیں گریہ سے بہہ نکلیں (یعنی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے)، پھر فرمایا: بیشک وہ دن بڑا سخت ہے لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کا کچھ بوجھ اور لوگ اٹھائیں۔ مولیٰ عزوجل نے مُدَّعِی سے فرمایا: نظر اٹھا کر دیکھ۔ اس نے نگاہ اٹھائی کہا: اے رب میرے! میں کچھ شہر دیکھتا ہوں سونے کے اور محل کے محل سونے کے سراپا موتیوں سے جَڑے ہوئے یہ کس نبی کے ہیں ، یا کس صدیق، یا کس شہید کے؟ مولیٰ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اُس کے ہیں جو قیمت دے۔ کہا: اے رب میرے! بھلا ان کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ فرمایا: تو۔ عرض کی: کیونکر؟ رواہ الحاکم في ’’المستدرک‘‘( ’’المستدرک‘‘، کتاب الأہوال ، باب إذا لم یبق... إلخ، الحدیث: ۸۷۵۸، ج۵، ص۷۹۵۔) والبیہقي في ’’کتاب البعث والنشور‘‘ وأبو یعلی في ’’مسندہ‘‘ وسعید بن منصور في ’’سننہ‘‘ عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ۔
    فرمایا: یوں کہ اپنے بھائی کو معاف کردے۔ کہا: اے رب میرے! یہ بات ہے تو میں نے معاف کیا۔ مولیٰ جل مَجدُہ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں لے جا۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسے بیان کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آپس میں صُلح کرو کہ مولیٰ عزوجل قیامت کے دن مسلمانوں میں صلح کرائے گا ۔
    (حاکم نے ’’مستدرک‘‘ میں ، امام بیہقی نے ’’کتاب البعث والنشور‘‘ میں ، ابو یعلی نے ’’مسند‘‘ اور سعید بن منصور نے اپنی ’’سنن‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)


  2. #2
    Rashid Jaan is offline Advance Member
    Last Online
    11th February 2024 @ 02:14 PM
    Join Date
    18 Oct 2016
    Location
    Ghotki Sindh
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    1,512
    Threads
    91
    Thanked
    84

    Default

    جزاک اللہ

  3. #3
    leezuka389's Avatar
    leezuka389 is offline Advance Member
    Last Online
    9th August 2023 @ 04:14 PM
    Join Date
    04 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    6,596
    Threads
    39
    Credits
    56,449
    Thanked
    294

    Default

    [QUOTE=Hamza Mohammad;5935013]

    مفلس کون ہے ؟


    حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
    أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((أتدرون من المفلس؟)) قالوا: المفلس فینا من لا درھمَ لہ ولا متاع فقال: ((إنّ المفلس من أمّتي، مَن یأتي یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام وزکاۃ، ویأتي قد شتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ہذا، وسفک دم ھذا، وضرب ھذا، فیعطی ھذا من حسناتہ وھذا من حسناتہ، فإن فَنِیَتْ حسناتُہُ قبل أن یقضی ما علیہ، أُخذَ من خطایاھم فطُرِحت علیہ، ثُمّ طُرِح في النار))۔
    ( ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب البر والصلۃ وآداب، الحدیث: ۲۵۸۱، ص ۱۳۹۴)
    یعنی: حضور اقدس سیّد ِعالم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہومفلس کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کی: ہمارے یہاں تو مفلس وہ ہے جس کے پاس زَر ومال نہ ہو۔ فرمایا: میری اُمّت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے، زکوٰۃ لے کر آئے اور یوں آئے کہ اِسے (یعنی کسی دوسرے شخص کو ) گالی دی ، اِسے زنا کی تہمت لگائی، اس کا مال کھایااس کا خون گرایا، اسے مارا تو اس کی نیکیاں اسے (صاحبِ حق کو) دی گئیں پھر اگر نیکیاں ہو چکیں اور حق باقی ہیں تو اُن (حق والوں ) کے گناہ لے کر اس پر ڈالے گئے پھر جہنَّم میں پھینک دیا گیا۔
    والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالیٰ۔
    غرض حقوق العباد بے اُن کی معافی کے معاف نہ ہوں گے (جب تک بندے اپنے حقوق معاف نہیں کریں گے اس وقت تک حق تلفی کرنے والے کومعافی نہیں ملے گی)
    ولہٰذا مروی ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الغیبۃ أشدّ من الزنا)) ۔
    غیبت زنا سے سخت تر ہے۔
    کسی نے عرض کی: یہ کیونکر؟ فرمایا: ((الرجل یزني ثم یتوب، فیتوب اللہ علیہ، وإنّ صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ))۔
    رواہ ابن أبي الدنیا في’’ذم الغیبۃ‘‘ والطبراني في ’’الأوسط‘‘(’’المعجم الأوسط‘‘، من اسمہ محمد، الحدیث: ۶۵۹۰، ج۵، ص۶۳۔) عن جابر بن عبد اللہ وأبي سعید الخدري، والبیھقي عنھما وعن أنس رضي اللہ تعالی عنھم۔
    زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور غیبت والے کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی ہے۔
    (ابن ابی الدنیا نے ’’ذم الغیبۃ‘‘ میں اور امام طبرانی نے ’’الاوسط‘‘میں حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری سے اور امام بیہقی نے ان دونوں کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی اس کی روایت فرمائی۔ت)
    پھر یہاں معاف کرا لینا سہل (آسان) ہے قیامت کے دن اس کی اُمید مشکل کہ وہاں ہر شخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، نیکیوں کا طلبگار، برائیوں سے بیزار ہوگا۔ پَرائی نیکیاں اپنے ہاتھ آتے اپنی بُرائیاں اس(دوسرے) کے سَر جاتے کسے بُری معلوم ہوتی ہیں ! یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے کہ ماں باپ کا بیٹے پر کچھ دَین آتا ہو گا اسےروز ِقیامت لپٹیں گے کہ ہمارا دَین دے وہ کہے گا میں تمہارا بچہ ہوں ، یعنی شاید رحم کریں ، وہ تمنا کرینگے کاش اور زیادہ ہوتا!۔
    الطبراني(’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۱۰۵۲۶، ج۱۰، ص۲۱۹۔) عن ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول: ((إنّہ یکون للوالدین علی ولدھما دین فإذا کان یوم القیامۃ یتعلقان بہ، فیقول: أنا ولدکما، فَیَوَدَّانِ أو یَتَمَنَّیَانِ لو کان أکثرَ من ذلک))۔
    ’’طبرانی ‘‘ میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ والدین کا بیٹے پر دَین ہوگا قیامت کے روز والدین بیٹے پر لپٹیں گے تو بیٹا کہے گا میں تمہارا بیٹا ہوں تو والدین کو حق دلایا جائے گا اور تمنا کریں گے کاش! ہمارا حق اور زائد ہوتا۔ (ت)
    جب ماں باپ کا یہ حال تو اوروں سے امید خام خیال (بیکار)، ہاں ! کریم ورحیم مالک ومَوْلیٰ جل جلالہٗ وتبارَکَ وتعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو یوں کرے گا کہ حق والے کو بے بَہا قُصورِ جنت ( جنت کے انمول محلّات) معاوضہ میں عطا فرما کر َعفوِ حق (حق معاف کرنے) پر راضی کر دے گا ایک کرشمۂ کرم میں دونوں کا بھلا ہوگا نہ اس کی حسنات (نیکیاں ) اُسے دی گئیں نہ اُس کی سیئات (برائیاں ) اِس کے سر رکھی گئیں نہ اُس کا حق ضائع ہونے پایا بلکہ حق سے ہزاروں درجے بہتر ا فضل پایا رحمتِ حق کی بندہ نوازی ظالم ناجی، مظلوم راضی۔( یعنی: اگر اللہ تبارک و تعالیٰ چاہے گا تو ایسا کرم ہوگا کہ ظالم نجات پائے گا اور مظلوم بھی راضی ہو جائے گا۔)
    فلِلّٰہِ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضی۔
    پس اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے ایسی حمد وثنا جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہے جیساکہ ہمارے رب کی پسند اور رِضاہے ۔ (ت)
    حدیث میں ہے:
    بینا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جالس إذ رأیناہ ضحک حتی بدت ثنایاہ، فقال لہ عمر: ما أضحکک یا رسول اللہ بأبي أنت وأمّي؟
    یعنی: ایک دن حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ناگاہ (اچانک) خندہ فرمایا (مسکرائے) کہ اگلے دندانِ مبارک ظاہر ہوئے، امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ حضور پر قربان! کس بات پر حضور کو ہنسی آئی؟
    ارشاد فرمایا: ((رجلان من أمتي جَثَیا بین یَدَي ربِّ العِزَّۃِ فقال أحدھما: یا رَبِّ خُذْ لي مَظْلِمَتِيْ من أخي، فقال اللہ تَعَالی للطّالب: کیف تصنعُ بأَخیکَ ولم یبق من حسناتہ شيء قال: یا ربّ فیحمل من أوزاري، وفاضت عَیْنَا رسول اللہ
    دو مرد میری امت سے رب العزت جل جلالہ کے حضور زانوؤں پر کھڑے ہوئے، ایک نے عرض کی: اے رب میرے! میرے اس بھا ئی نے جو ظلم مجھ پر کیا ہے اس کا عوض میرے لئے لے۔ رب تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کے ساتھ کیا کریگا اس کی نیکیاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالبکاء، ثم قال: إنّ ذاک الیوم عظیم یحتاج الناس أن یُحْمَلََ عنھم من أوزارِھِمْ، فقال اللہ للطّالب: ارفع بَصَرکَ فانظر، فرفع فقال: یا ربِّ أرَی مدائنَ من ذھبٍ وقصورًا من ذھبٍ مُکَلَّلَۃً باللُّؤلُؤ لِأيِّ نبيّ ھذا أو لِأيِّ صدیق ھذا أو لأيِّ شھید ھذا؟ قال: لِمَنْ أعطی الثَّمَن، قال:یا ربِّ ومن یملک ذلک؟ قال: أنت تملکہ، قال: بماذا؟ قال: بعفوک عن أخیک، قال: یا ربِّ فإنّي قد عفوتُ عنہ، قال اللہ تعالی: فخُذْ بیدِ أخیْکَ فأدْخِلْہُ الجنَّۃ۔فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عند ذلک: ((اتقوا اللہ وأصْلِحُوا ذات بینکم فإنّ اللہ یُصلِح بین المسلمین یوم القیامۃ))۔
    تو سب ہو چکیں۔ مُدَّعِی نے عرض کی: اے رب میرے! تو میرے گناہ وہ اٹھالے۔ یہ فرماکر حضور رحمت ِعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی آنکھیں گریہ سے بہہ نکلیں (یعنی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے)، پھر فرمایا: بیشک وہ دن بڑا سخت ہے لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کا کچھ بوجھ اور لوگ اٹھائیں۔ مولیٰ عزوجل نے مُدَّعِی سے فرمایا: نظر اٹھا کر دیکھ۔ اس نے نگاہ اٹھائی کہا: اے رب میرے! میں کچھ شہر دیکھتا ہوں سونے کے اور محل کے محل سونے کے سراپا موتیوں سے جَڑے ہوئے یہ کس نبی کے ہیں ، یا کس صدیق، یا کس شہید کے؟ مولیٰ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اُس کے ہیں جو قیمت دے۔ کہا: اے رب میرے! بھلا ان کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ فرمایا: تو۔ عرض کی: کیونکر؟ رواہ الحاکم في ’’المستدرک‘‘( ’’المستدرک‘‘، کتاب الأہوال ، باب إذا لم یبق... إلخ، الحدیث: ۸۷۵۸، ج۵، ص۷۹۵۔) والبیہقي في ’’کتاب البعث والنشور‘‘ وأبو یعلی في ’’مسندہ‘‘ وسعید بن منصور في ’’سننہ‘‘ عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ۔
    فرمایا: یوں کہ اپنے بھائی کو معاف کردے۔ کہا: اے رب میرے! یہ بات ہے تو میں نے معاف کیا۔ مولیٰ جل مَجدُہ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں لے جا۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسے بیان کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آپس میں صُلح کرو کہ مولیٰ عزوجل قیامت کے دن مسلمانوں میں صلح کرائے گا ۔
    (حاکم نے ’’مستدرک‘‘ میں ، امام بیہقی نے ’’کتاب البعث والنشور‘‘ میں ، ابو یعلی نے ’’مسند‘‘ اور سعید بن منصور نے اپنی ’’سنن‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)

    [/QUOTE





    ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ

  4. #4
    Osama Shaheen's Avatar
    Osama Shaheen is offline Advance Member
    Last Online
    27th March 2023 @ 01:57 PM
    Join Date
    16 Apr 2017
    Location
    Lahore
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    803
    Threads
    10
    Credits
    4,135
    Thanked
    11

    Default

    جزاک اللہ۔
    اللہ پاک آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے: آمین

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •