﷽
اچھے دوست کی ہمنشینی سَعادتِ دارین ہے
ابن ابی الدنیا، بیہقی نے شعب الایمان میں ،ا ور ابو نعیم نے حضرت مجاہد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کی ہے کہ کوئی نہیں مرتا مگر اس کے اہلِ مجلس اس پر پیش کیے جاتے ہیں اگر وہ (مرنے والا ) اہلِ ذکر سے ہوتا ہے تو ذکر والے اور اگر کھیل کود والوں میں سے ہوتا ہے تو کھیل کود والے پیش کیے جاتے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء، مجاہد بن جبر، الحدیث:۴۱۱۵، ج۳، ص۳۲۴)
پیارے اسلامی بھائیو! اس روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ جب ہم مرتے وقت اہلِ ذکرکو ملاحظہ کریں تو ہمارے لبوں پر بھی اللہ عزوجل کا ذکر جاری ہو۔
اچھے ہمنشین کی پہچان
حدیث شریف میں ہمیں اچھے دوست کی پہچان بتائی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا۔
'' اچھا ہمنشین وہ ہے کہ اس کے دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔
(الجامع الصغیر، حرف الخاء، الحدیث:۴۰۶۳، ص۲۴۷)
اچھے دوست کی ہمنشینی نہ صرف دنیامیں سودمندہوتی ہے بلکہ قبرمیں بھی نیکوکار کی صحبت فائدہ پہنچاتی ہے چنانچہ ایک روایت میں آتاہے ''ابن ابی الدنیا''نے ''قبور'' میں حضرت عبداللہ بن نافع مزنی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کی کہ ایک شخص مدینہ میں انتقال کرگیاتواسے دفن کردیاگیاپھر کسی شخص نے اسے خواب میں دیکھا، گویا کہ وہ اہل نار (دوزخ والوں) سے ہے تو اسے اس پر غم ہوا پھر سات یا آٹھ روز کے بعد دوبارہ اسے دیکھا۔ گویا کہ وہ اہلِ جنت سے ہے۔(خواب دیکھنے والے نے) اس سے (یہ معاملہ) پوچھا تو (مرنے والے نے) کہا کہ ہمارے ساتھ نیکوکاروں میں سے ایک مرد صالح دفن کیا گیا ، پس اس نے اپنے پڑوس میں سے چالیس آدمیوں کے لئے سفارش کی، ان (چالیس) میں سے ایک میں بھی تھا۔
(شرح الصدور، باب دفن العبد فی الارض التی خلق منہا، ص۱۰۲)
ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا :بڑوں کی صحبت میں بیٹھا کرو اور علماء سے باتیں پوچھا کرو اور حکما سے میل جول رکھو۔
(المعجم الکبیر، الحدیث:۳۲۴، ج۲۲، ص۱۲۵)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ایسی چیز میں نہ پڑو جو تمہارے لئے مفید نہ ہو اور دشمن سے الگ رہو اور دوست سے بچتے رہو، مگر جب کہ وہ امین ہو کہ امین کے برابر کوئی ہمنشین نہیں اور امین وہی ہے جو اللہ سے ڈرے اور فاجر کے ساتھ نہ رہو کہ وہ تمہیں فجور سکھائے گا اور اس کے سامنے بھید کی بات نہ کہو، اور اپنے کام میں ان سے مشورہ لو جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔
(کنزالعمال، کتاب الصحبۃ قسم الافعال، باب آداب الصحبۃ، الحدیث:۲۵۵۶۵، ج۹، ص۷۵۔شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، فصل فی فضل السکوت...الخ، الحدیث:۴۹۹۵،ج۴،ص۲۵۷)
ایک حدیث شریف میں اچھے دوست کی پہچان یہ کرائی گئی کہ ''اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھُولے تو یاد دلادے۔
(الجامع الصغیر، باب حرف الخاء، الحدیث:۳۹۹۹، ص۲۴۴)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ:'' جب ایک شخص دوسرے شخص سے بھائی چارہ کرے تو اس کا نام اور اس کے باپ کانام پوچھ لے اور یہ کہ وہ کس قبیلہ سے ہے، کہ اس سے محبت زیادہ پائیدار ہوگی۔''
(سنن الترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء فی اعلام الحب، الحدیث:۲۴۰۰، ج۴،ص۱۷۶)
Bookmarks