﷽
بُرے دوست کی ہمنشینی ہلاکتِ دارین ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ بُرے مصاحب (ساتھی ،ہمنشین ) سے بچ کہ تو اسی کے ساتھ پہچانا جائے گا یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست و برخاست ہوتی ہے، لوگ اسے ویسا ہی جانتے ہیں۔
(کنزالعمال، کتاب الصحبۃ، قسم الاقوال، الباب الثالث فی الترہیب عن صحبۃ السوء، الحدیث:۲۴۸۳۹، ج۹،ص۱۹)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لئے مزین کریگا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کبھی نفع نہیں پہنچائے گا اور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا۔ اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے اور اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور کذاب سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ معاشرت تجھے نفع نہیں دے گی تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔
(کنزالعمال، کتاب الصحبۃ، قسم الافعال، باب فی آداب الصحبۃ، الحدیث:۲۵۵۷۱، ج۹، ص۷۵)
حضرت مالک بن دینار رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے داماد حضرت مغیرہ بن شعبہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا
کُلُّ اَخٍ وَّ صَاحِبٍ لَمْ تَسْتَفِدْ مِنْہُ فِی دِیْنِکَ خَیْرًا فَاَنْبِذْ عَنْکَ صُحْبَتَہ' حَتّٰی تَسْلَمَ.
(کشف المحجوب ، باب الصحبۃ ومایتعلق بہا ، ص۳۷۴۔حلیۃ الاولیاء ، المغیرۃ بن حبیب ، الحدیث:۸۵۵۵، ج۶، ص۲۶۷)
ترجمہ : اے مغیرہ ! جس بھائی یا ساتھی کی صحبت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائے تم اس کی صُحبت سے بچو تاکہ تم محفوظ و سلامت رہو۔
پیارے اسلامی بھائیو! حدیث مبارک اور حضرت مالک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے قول مبارک سے بخوبی معلوم ہوا کہ بُری صحبت سے بچنا لازم و ضروری ہے بُری صحبت چونکہ ماحول ہی کی پیداوار ہے چنانچہ بُرے ماحول کا بائیکاٹ کرنا بُری صحبت سے اجتناب کرنا ہے۔
خبردار ہوجائیے!کیا آپ غافل ہیں؟کیا آپ نے اس ایمان سوز اور دلخراش منظر کو نہیں دیکھا؟اگر نہیں دیکھا تو سُنیے اور بچئے!کیونکہ مُعاملہ ایمان کا ہے۔
آج کل بعض لوگ لطیفوں کی کیسٹیں اپنے گھروں، دوکانوں اور بازاروں میں بڑے شوق سے بجاتے اور سنتے سناتے ہیں، جب کہ ان میں بعض لطیفے دوسری قباحتوں کے علاوہ کفریہ ہوتے ہیں جن کو سُن کر قہقہے اور ٹھٹھے بلند ہوتے ہیں۔ غیرتِ ایمانی کہاں روپوش ہوگئی کیسٹ بجانے والا مسلمان ہے اور سننے والا یا والے بھی اسلام کے دعویدار ہیں مگر جو کچھ سنا جارہا ہے ، وہ سراسر اسلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ اسلام کے خلاف بلند ہونے والی ہر آواز کو معدوم کردے اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو زبانی طور پر روکنے کی کوشش اور جدوجہد کرے اور اگر اس پر بھی قدرت نہیں تو ایسے ناپاک اور مردار ماحول سے کلی طور پر اجتناب اور اعراض کرے مگر افسوس صد افسوس بجائے اس کے کہ مسلمان غیر اسلامی آواز و حرکات و سکنات کو معدوم کرتا خود اس کو بلند کیے ہوئے ہے۔
للہ! ایمان کی حفاظت کیجئے ہر بُرے ماحول سے اجتناب کرکے اچھے ماحول سے وابستہ ہوجائیے کہ یہ ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ اور دنیاو آخرت کا سرمایہ ہے۔
Bookmarks